اسلام آباد(خبر نگار) عدالت عظمیٰ نے دہشت گردی کے خلاف عوام کے تحفظ کے لئے تہواروں اور مخصوص مواقع پر موبائل فون سروس بند کرنے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قراردیاہے کہ غیر معمولی صورتحال میں وفاقی حکومت عوام کے تحفظ کے لئے قابل جواز فیصلے کرنے کی مجاز ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں2 رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کی اپیلیں منظور کرکے قرار دیا کہ اعلی ٰعدلیہ پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی ،کمپنیوں کو سروس کی بندش کے وقت سکوپ اور ایریا کے حوالے سے تحفظات ہیں تو وفاقی حکومت سے رابطہ کرے ۔عدالت نے قرار دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے حقائق کو مدنظر نہیں رکھا۔ عدالت نے موبائل کمپنی سی ایم پاک پرائیوٹ لمیٹڈ کے وکیل کے دلائل کو مسترد کردیا۔عدالت کا فیصلے میں کہنا تھا کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مسلکی بنیادوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، عموماً محرم کے حساس مہینے میں اقدامات کئے جاتے ہیں،ان مواقع پر سروس کی معطلی قابل جواز ہے ۔عدالت نے قرار دیا ملک میں بزنس اور غیرملکی سرمایہ کاری ضروری ہے لیکن قومی سلامتی کے معاملات کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے کہ غیرملکی سرمایہ کار کمپنی قومی مفاد کے معاملات کا مذاق نہ اڑائے ، موبائل فون بندش کے فیصلے قومی مفاد میں کئے جاتے ہیں تاہم فیصلے اور ہدایات قابل جواز اور شفاف ہونے چاہئیں،کمپنی یہ نہ بتائے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کدھر جاتے ہیں اورکدھر نہیں، کمپنیوں نے ہر حال میں ریاست کے قوانین کی پابندی کرنی ہے ۔ فاضل وکیل نے کہا کہ پی ٹی اے کی ہدایات کا معیار ہونا چاہئے ،یہ نہیں کہ سابق وزیر اعظم کو جیل لیجانا ہو تو سروس بند کردی جائے ۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے کہا کہ غیرملکی کمپنی حکومت کو سروس بند کرنے کے معاملہ پر ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار زندگیاں گنوائیں اور اربوں کا نقصان اٹھایا، معیشت چلانی ہے اور قومی سلامتی کے معاملات کو بھی دیکھنا ہے ، بیرون ملک ایئرپورٹس پر پتلونیں بھی اتروا لی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں جو مرضی کرتے رہو، آپ نے اس ملک میں کام کرنا ہے توقوانین کو ماننا ہو گا۔ فریقین دونوں صورتوں میں درمیانی راستہ نکال کر چلیں، ہمیں آئی ٹی کا زیادہ نہیں پتہ ، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل موبائل فون کمپنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیوں نہ آپ کو 50 ہزار یا ایک لاکھ جرمانہ کر دیں؟ سپریم کورٹ نے قرار دیا وفاقی حکومت مالی نقصانات والے ان انتہائی پیچیدہ معاملات کا جائزہ لے ۔