آپ کو یاد ہو گا کہ نواز شریف کے ملک سے باہر جاتے ہی ایک تاثر یہ پیدا ہو ا تھا یا دیا گیا تھاکہ نواز شریف ڈیل کے تحت باہر گئے ہیںمگر عمران خان اس ڈیل کا حصہ نہیں۔اگر یہ تاثر درست تھا تو جان لیجئے کہ اب عمران خان نے نواز شریف کو باہر بھیجنے والوں سے تعلقات خراب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ بظاہر اس کہانی کے تین فریق ہے ، فریق اول ،عمران خان ، فریق دوم، نواز شریف اورفریق سوم، نواز شریف کو باہر بھیجنے والے۔اس کہانی پر یقین کرنے والوں کو لگتا ہے کہ نواز شریف کے معاملے کو دوبارہ عدالت میں لے جانے کے فیصلے سے فریق اول اور فریق سوم کے تعلقات خراب ہو جائیں گے ، جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ تعلقات پہلے ہی خراب ہو چکے ہیں تبھی تو فریق اول نے فریق دوم کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بظاہر سادہ سی کہانی ہے اور شہر اقتدار کے باسیوں کا گمان ہے کہ سب اچھا نہیں۔ یہ گمان کہیں مشاہدے کی بنیاد پر ہے اور کہیں خبر کی بنیاد پر ۔ دعویٰ یہ ہے کہ عمران خان نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لیے بادل نخواستہ مان تو گئے لیکن اگلے ہی دن سے ایک خلش نے دل میں گھر کر لیا کہ یہ اچھانہیں ہوا۔ لہذا پہلے ہی دن انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کا اظہار کر دیا تھا کہ انہیں جو میڈیکل رپورٹس دکھائی گئیں وہ ملک چھوڑ کر جانے والے نواز شریف کی ظاہری حالت سے مطابقت نہیں رکھتیں۔تاثر انہوںنے یہ دیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا۔پھر اکثر اوقات وہ اپنے انہی خیالات کا اظہار کرتے رہے جس میں تاسف کا پہلو نمایاں تھا۔ تین مہینے تک گو مگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد حکومت نے نواز شریف کے لیے بیرون ملک قیام کو مشکل بنانے، اپنی سیاسی چال چلنے اور نواز شریف کی واپسی کے لیے قانونی راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے گذشتہ ہفتے کے کالم ’’ حکومت نواز شریف کو واپس لانا ہی نہیں چاہتی ‘‘ میں میں نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ حکومت نواز شریف کے بیرون ملک قیام میں توسیع کی درخواست قبول کر رہی ہے نہ ہی رد کر رہی ہے ۔ یہ بھی عرض کیاتھا کہ اگر حکومت نواز شریف کی درخواست مسترد کر دیتی ہے تو عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گا جس کے نتیجے میں پہلے نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتار ی جاری ہوں گے اور پھر انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ یہ کالم 22 فروری کو شائع ہوا ، اس کے ٹھیک دو دن بعد یعنی 24 فروری کو نواز شریف کا ایک بڑا آپریشن ہونا تھا جس کے لیے رانا ثناء اللہ سمیت دیگر لیگی رہنمائوں نے قوم سے دعائوں کی اپیل کر رکھی تھی۔ لیکن 24 فروری کا دن گزر گیا آپریشن ہونا تھا نہ ہوا۔ 24 فروری تو کیا اس کے بعد بھی آپریشن کا ذکر تک نہیں ، کیا معلوم ہونا بھی ہے یا نہیں۔ آپریشن کی تاریخ گزرنے کے بعد حکومت پنجاب کی وہ کمیٹی سر جوڑ کے بیٹھ گئی جو نواز شریف کے بیرون ملک قیام میں توسیع کا فیصلہ کرنے کی مجاز تھی۔ ا س کمیٹی نے بار بار نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس مانگنے اور جواب نہ ملنے کے بعد ایک سخت اور اصولی فیصلہ کیا ۔ وہ فیصلہ یہ تھا کہ نواز شریف کو لند ن میں مزید قیام کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ان کی درخواست میڈیکل رپورٹس کی عدم فراہمی کی بنیاد پر مسترد کی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے حکومت کے پاس نواز شریف کے آپریشن سے متعلق معلومات موجود ہیں نہ ان کے پلیٹ لیٹس سے متعلق آگاہی، حکومت کے پاس ان کی دل کی صحت سے متعلق تازہ رپورٹس موجود ہیں نہ خون کی روانی اور دماغ کو ترسیل سے متعلق معلومات۔ حکومت کا آخری انتطار بھی 24 فروری کو اس وقت ختم ہوا جب پتہ چلا کہ کوئی آپریشن نہیں ہوااور نہ بظاہر اس کی کوئی فوری ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔لہذا حکومت شش و پنج سے نکل آئی۔ حکومت پنجاب نے اس کے لیے جو لائحہ عمل مرتب کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے حکومت مشکل فیصلہ کرنے جا رہی ہے ۔ پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے پاس بھیجے گی اور وفاقی حکومت اسے اسی اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس لے جائیگی جس نے نواز شریف کو آٹھ ہفتے کی ضمانت دیتے ہوئے مزید فیصلے کا اختیار پنجاب حکومت کو دیا تھا۔ حکومت عدالت کو بتائے گی کہ آپ کے دیے ہوئے اختیار کے تحت ہم نواز شریف کو بیرون ملک قیام کی مزید اجازت نہیں دینا چاہتے ۔لہذا ضابطے کی کارروائی آگے بڑھائی جائے ۔ا س کے بعد ممکنہ طور پر نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے اور پیش نہ ہونے پر انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان نے چند روز پہلے میانوالی کے علاقے کندیاں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بڑے چور ملک سے باہر جا کر بیٹھ جائیں گے اور صرف چھوٹے چوروں کو پکڑاجائے گا تو کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ جب عمران خان یہ اعلان کر رہے تھے اس وقت حکومت ان کے مطابق ’’بڑے چور‘‘ کو واپس لانے کے لیے کارروائی کے آغاز کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اسی اثنا ء میں وزرا ء کے بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جس میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ نواز شریف کو باہر بھجوانے جانے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کرنے والی میڈیکل رپورٹس کی تحقیقات کرائی جائیں کہ وہ اصلی تھیں یا جعلی۔ گویا 24 فروری کے گزرنے کے بعد حکومت نواز شریف کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے لگی یہاں تک کہ سخت فیصلے پر پہنچ گئی۔ بحر حال اگر حکومت کا فیصلہ سنجیدگی پر مبنی ہے تو کچھ ہی دن میں نواز شریف عدالت سے اشتہاری قرار دیے جانے والے ہیں۔ ایسے میں واپس تو وہ نہیں آئیں گے بس تسلی سے لند ن میں بیٹھیں اور بے معنی خفیہ ملاقاتیں کرتے رہیں۔ ٭٭٭٭٭