پاکستان میں ایڈورٹائزنگ کے بانی ایس ایچ ہاشمی مرحوم تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ طویل عرصہ تک اشتہاری بزنس کو مثبت اقدار کے ساتھ فروغ دیتے رہے ہیں۔ کاروباری اصولوں سے لے کر قومی روایات کی پاسداری کرتے رہے ۔راقم الحروف کو زمانہ طالب علمی سے ان سے نیازمندی رہی تھی ۔ یونیورسٹی سے ایم بی اے کرنے کے بعد اتفاقاًایڈورٹائزنگ بزنس میں آگیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد انہوںنے کراچی سے فون کرکے فرمائش کی کہ وہ مجھے پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن کا عہدیدار بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے معذرت کی کہ میرا اصل میدان کار تو کچھ اور ہے لیکن انہوںنے کہاکہ کسی وقت ہمیں آپ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں ان کے اصرار پر PAAکاممبر اور ایگزیکٹو باڈی کا ممبرتو بن گیا لیکن عہدیداری سے معذرت کرتے ہوئے کہا جب بھی ایسوسی ایشن کو میری ضرورت ہوئی تو آپ مجھے اپنے ساتھ کھڑاپائیںگے۔ آج کل میڈیا اور ایڈورٹائزنگ بحرانی دور سے گزر رہے ہیں ۔ان سطور میںپاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن کے ایماء پر حکومت پنجاب کے سامنے اپنی معروضات پیش کررہاہوں۔حکومت کادعویٰ تو یہ ہوتاہے کہ کاروبار کو آسان بنایاجائے گا تاکہ عام آدمی اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اجتماعی زندگی میں گونا گوں رنگ بھر سکے۔ اگر ہم روزگار کے مواقع عوام کے لیے نہیں کھول سکتے تو کم ازکم کاروبار کے مواقع تو عام آدمی پر بند نہیںہونے چاہئیں ۔ سیاست میں عام آدمی کا داخلہ بند ہوچکاہے۔ پاکستان کی جمہوریت ووٹر کی خدمت کے بجائے اشرافیہ کی خدمت کاذریعہ بن چکی ہے ۔ مسابقتی کمیشن کے باوجود ہر شعبہ زندگی میں صلاحیت کے بجائے سرمایہ داری کا قبضہ قائم ہو رہاہے۔ حکومتی پالیسیوں اور کرونا کی عالمی وباء کے باعث کاروبار سکڑتا جارہاہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو کم سرمایہ رکھتے ہیں ،ان کے لیے حالات بے قابو ہو رہے ہیں۔ اشتہاری صنعت روز بروز تبدیلیوں کی زد میںہے خود ٹیکنالوجی میں آئے روز کی تبدیلیاں بھی اس صنعت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ اسی دوران پنجاب حکومت نے اپنی میڈیا پالیسی میں ایڈورٹائزنگ کے شعبہ کو ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیا ہے۔حکومت پنجاب نے ایک تازہ ہدایت جاری کی ہے ۔ حکومت پنجاب کا محکمہ تعلقات عامہ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں سے ایک کروڑ کی بنک گارنٹی لے گا۔ یہ شرط ناقابل فہم ہے۔ ایجنسیوں کابزنس تو ایسا ہے جس میں ایجنسیوں کا پیسہ تو حکومتی اداروں اور کلائنٹ کی طرف پھنسا ہوتاہے۔ اخبارات کے مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرسوسائٹی (APNS) اور ٹیلی ویژن مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA)اشتہاری بزنس پر پوری نگاہ رکھتاہے۔ یہ دونوں ادارے ریگولیٹری اتھارٹی کا کام کرتے ہیں۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں ان دونوں تنظیموں سے ممبر شپ حاصل کرکے اشتہارات جاری کرتی ہیں۔ ممبر شپ حاصل کرنے کیلئے دیگر شرائط کے علاوہ انہیں بنک گارنٹی بھی دینا پڑتی ہیں۔ ایڈورٹائزنگ کی کتابی بات تو یہ ہے کہ ایجنسی اشتہار تیار کرکے اخبارات اور ٹیلی ویژن کو جاری کرتی ہے اور پھر کلائنٹ سے بل وصول کرکے اپنا کمیشن رکھ کر باقی رقم اخبارات اور ٹیلی ویژن کو دیتی ہیں لیکن یہ کتابی فارمولا عملی زندگی میں کم ہی چلتا ہے۔ کریڈٹ پیریڈمیں اخبار اور ٹی وی کو کسی اشتہار کی ادائیگی نہ ہو تو PBAاور APNSاشتہاری ایجنسی کو بلیک لسٹ کردیتی ہے۔ جس کے بعد وہ ایجنسی ڈیفالٹر کلائنٹ سمیت کسی بھی کلائنٹ کا کوئی اشتہارجاری نہیں کرسکتی ۔ یہ ایک ایسی کڑی شرط ہے جوکسی اور کاروبار میں نہیںہے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر ایجنسیاں کلائنٹ کی ادائیگی اپنے پلے سے کرکے وصولی کے لیے کلائنٹس کے پیچھے پھرتی رہتی ہیں۔یہی صورتحال سرکاری اشتہارات کی ہے۔ ایجنسیوں کی رقم کئی کئی ماہ محکموں میں پھنسی رہتی ہیں۔ اب پنجاب حکومت کی طرف سے یہ شرط لگا دی گئی ہے کہ وہ ایک کروڑ کی بنک گارنٹی جمع کروائیں۔ اگر یہ پالیسی باقی صوبے ،آزادکشمیر اور مرکز بھی اختیار کرلیں تو ایجنسی کو سات /آٹھ کروڑ کی بنک گارنٹیاں دینا پڑیں گی۔ ان شرائط کی موجودگی میں اس کاروبار میں عام آدمی کا داخلہ ممکن نہیں رہے گا۔حکومت کو چاہیے کہ اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرے۔