وضعداری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا دل کم فہم مروت کو محبت سمجھا عین فطری تھا حسد مجھ سے مرے یاروں کا جانے کیوں کر میں رقابت کو عداوت سمجھا جناب! بات کچھ ایسے ہے جو ہم سمجھتے ہیں وہ کوئی حرف آخر نہیں ہوتا۔نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے۔پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے۔ایسا ہوتا ہے ہم جس کوتنزل سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ حکومت وقت کے مطابق ترقی ہوتی ہے۔جلیل عالی کے بقول لوگوں نے احتجاج کی خاطر اٹھائے ہاتھ۔اس نے کہا کہ فیصلہ منظور ہو گیا ہم جائیں تو جائیں کہاں کہ میڈیا کا یہ بھی عیب ٹھہرا کہ وہ سچ بولنے لگ جاتا ہے جبکہ اسے مصلحتاً چلنا چاہیے۔ سائیں عثمان بزدار بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ وہ بس اپنی ہی لہر لہر میں رہتے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر ایک بیان جاری کر دیتے ہیں اور ہم اس کے مطالب و معنی سے فیض یاب ہو جاتے ہیں اور نہال بھی۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے میں آخری حد تک جائیں گے۔کوئی اس پر بے شک کہتا رہے کہ یار حد ہی ہو گئی ہے۔نہیں جناب حد ابھی نہیں آئی ، آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔اب کسی بات پر نہیں آتی ،ہمیں تو رونا بھی نہیں آتا کہ پانی آنکھ کا خشک ہو چکا ہے ۔ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو۔پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں۔ جی آپ نے سنا نہیں کہ سائیں جی نے جو فرمایا ہے اس کی تائید اس شعلہ بار خبر سے ہوتی ہے کہ حکومت نے ایک بار پھر عوام کو ریلیف دیا ہے کہ اس بار پھر پٹرول کی قیمتوں میں دس روپے کی بجائے صرف پانچ روپے اضافہ کیا جا رہا ہے یعنی 5روپے فی لٹر کی بچت۔ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو بہرحال اس’’ ریلیف‘‘ کا جس کو فرق پڑتا ہے تو پڑتا رہا۔پی ٹی آئی کے ٹائیگزر کا کہنا ہے کہ وہ 200 روپے لیٹر بھی خریدیں گے اور اگر سانس لینے پر بھی ٹیکس لگا تو وہ بھی دیں گے اچھی بات ہے مگر جو طاقت خرید ہی نہیں رکھتے اور جن کو اس صورت حال میں سانس ہی نہیں آ رہی تو وہ کدھر جائیں ۔ مجھے یاد آیا کہ پیچھے کوئی ایک آدھ روپیہ فی لیٹر کم بھی کی تھی تو تب ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ لانگ جمپ کے لئے کچھ پیچھے جانا پڑتا ہے۔ ویسے عثمان بزدار سے بھی زیادہ پرلطف بیان شبلی فراز صاحب کا ہے۔فرماتے ہیں مہنگائی کے علاوہ باقی سارے اشاریے مثبت ہیں۔شبلی فراز ان دنوں اصل میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پراجیکٹ پر ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح اپوزیشن کو زیر دام لے آئیں مگر ادھر بھی تو کچی گولیاں کھیلنے والے نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر صاد ، مشین میں ہاتھ دینے کے مترادف ہو گا۔گرانی کے حوالے سے تو سب وزراء بھی یکسو ہیں کہ گرانی ضرور ہے اور باقی سب خیر ہی خیر ہے۔جبکہ غریب بے چارہ کیا کہے۔میاں محمد نے کیا شعر کہا تھا: آئی جان شکنجے اندر، جِیوں وِچ ویلن دے گَنا رَو نْوں کہہ ہْن رو مْحمد ،جے رَہوے تے مَنا تفناً طبع کا سامان کرنے کے لئے ایک نہایت دلچسپ واقعہ کا تذکرہ اچھا رہے گا ایک شخص گنڈیریاں چوستا جاتا اور گنڈیریوں کے چھلکے پھینکتا جاتا۔اس سے پیچھے ایک شخص ان چھلکوں کو اٹھا کر چوسنے کی کوشش کرتا جاتا۔گنڈیریاں چوسنے والے نے مڑ کے پیچھے آنے والے کو یہ حرکت کرتے دیکھا تو کہا ’’تو بڑا کنجوس ہے چھلکے اٹھا کر چوس رہا ہے۔پیچھے آنے والے نے جواب آں غزل کے طور پر کہا آپ تو مجھ سے بھی زیادہ بلکہ مہا کنجوس ہو کہ چھلکوں میں رس کی بوند بھی نہیں چھوڑ رہے۔تو جناب رس ایسے ہی نچوڑا جاتا ہے۔ہم بھی مہنگائی کے دانتوں کے نیچے آئے ہوئے ہیں عمران خاں بارہا کہہ چکے ہیں اب مہنگائی میں کمی آتی جائے گی مگر کمی کے معنی تو کم ہونے کے ہوتے ہیں وہی بقول فاخرہ بتول ’’تھا کا مطلب تمہیں آتا ہو گا‘‘۔ہائے ہائے وہ محبت کا کوئی لفظ نہ لب تک لایا اور میں تھا کہ برابر ہمہ تن گوش رہا یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت غربت کی بجائے غریب مٹا رہی ہے۔ہرگز نہیں پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔غریب بڑے سخت جان ہیں دیکھیے وہ اس مہنگائی میں بھی زندہ ہیں اور وہ مہنگائی کے خلاف آخری سانس تک لڑیں گے۔تم خجر آزمائو جگر آزمائیں ہم مجھے تو دکھ ان بے چارے پرائیوٹ ملازمین کا ہے کہ جن کے ہاتھ میں لنگوٹی تک بھی نہیں آتی۔بلکہ ان کو تو اپنی لنگوٹی کی پڑ گئی ہے سرکاری ملازمین کو تو چلو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کچھ تو مل گیا مگر تاجر لوگ اپنے ملازمین کی تنخواہیں کیسے اور کیوں بڑھائیں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس مطالبے پر ملازم ہی فارغ ہو جائے۔اخبارات تک نے بھی کتنوں کو نکالا ہے سوائے ایک آدھ اخبار کے کہ ان کے دل میں ابھی خوف خدا ہے وہ جانتے ہیں کہ ملازم اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت کے ساتھ ہم بھی تو تعاون نہیں کرتے۔ہمیں اپنی زندگی میں سادگی لانی چاہیے کچھ چیزیں تو چھوڑی جا سکتی ہیں اور کچھ کم ہو سکتی ہیں۔مثلاً آپ چینی ہی کو لے لیں یہ نرا سفید زہر ہے پھر اس کے زیادہ استعمال سے شوگر کا اندیشہ ہے بہرحال چینی کھانا کوئی اچھی بات نہیں آپ شہد استعمال کر لیں دوسرا دل سمیت کئی بیماریوں کا موجب یہی بناسپتی گھی ہے اگر آپ سبزیاں ابال کر استعمال کریں تو یہ انتہائی مفید ہیں ان میں ڈالا گیا گھی اور مصالحہ جات سارے وٹامنز کو زائل کر دیتے ہیں ویسے بھی ابالی ہوئی سبزی زود ہضم ہے گوشت استعمال کرنا تو ویسے بھی کوئی لازمی نہیں مثلاً ہندو گوشت کھاتے ہی نہیں اب 1400سو روپے کلو گوشت کا سن کر آپ کو دل کا عارضہ ہو سکتا ہے بہتر ہے کہ آپ اس کا بھائو ہی نہ پوچھیں۔یہ ٹپ ہیں جو میں آپ کو مفت میں ہی دے رہا ہوں۔ بیکری کی اشیا تو آپ سرے سے چھوڑ دیں۔یہ دانتوں کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ کولڈ ڈرنکس تو آپ جانتے ہیں معدے کو برباد کرتی ہیں آپ زیادہ سے زیادہ تازہ ہوا کھائیں مصیبت یہ ہے کہ ہر شے بکنے لگی ہے حتیٰ کہ پانی بھی صاف پانی تو کوئی دودھ میں بھی نہیں ڈالتا۔سجاد بلوچ کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت : رکھتا ہوں پائوں دیکھ کے چلتا ہوں دھیان سے پھر بھی پھسل رہا ہوں سمے کی ڈھلان سے