وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا تازہ ارشاد ہے کہ امریکہ نے ہماری امداد بند نہیں کی بلکہ یہ تیس کروڑ ڈالر کی وہ رقم ہے جو پاک فوج کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں اٹھنے والے اخراجات یعنی سی ایس ایف کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں تھی۔ واضح رہے کہ یہ رقم پہلے ہی امریکہ نے معطل کر رکھی تھی اب کورا سا جواب دے کر اسے منسوخ کر دیا ہے، دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ نہ جانے قریشی صاحب قوم اور خود کو طفل تسلیاں کیوں دے رہے ہیں؟۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اپنے وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جوزف ڈنفورڈ کی آمد سے عین قبل پاکستان کے’’ سکریو ٹائٹ‘‘ کر رہا ہے۔ اس کے اہداف واضح ہیں اور اس معاملے میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون ایک ہی صفحے پر ہیں گویا کہ اس دورے سے عین قبل پاکستان پر بھرپور طریقے سے سفارتی اور دفاعی دباؤ ڈالا جائے۔ واشنگٹن کا موقف سیدھا ہے، وہ ایک طرف تو کہتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین افغان طالبان کی پناہ گاہوں اور افغانستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہ ہو ۔ دوسرا اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ پاکستان طالبان کومذاکرات کی میز پر لے آئے تاکہ صدر اشرف غنی کی سربراہی میں ایک وسیع البنیاد حکومت بن سکے ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ کی سترہ سالہ طویل جنگ سے اکتا چکا ہے اور صدر ٹرمپ ہر وہ حربہ استعمال کر رہے ہیں جس کے ذریعے امریکی فوجیں افغانستان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ سکیں لیکن بدقسمتی سے زمینی حقائق امریکی خواہشات سے پوری طرح لگا نہیں کھاتے ۔ سب سے کلیدی بات تو یہ ہے کہ طالبان کا افغانستان کے ستر فیصد علاقے پر قبضہ یا اثرورسوخ ہے ۔اشرف غنی کا اختیار اور اقتدار ان کے صدارتی محل یا زیادہ سے زیادہ کابل اور چند صوبوں تک محدود ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ افغان صدر محض امریکہ کا کٹھ پتلی ہے تو یہ خلاف حقیقت نہیں ہو گا ۔لہٰذا افغان طالبان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ افغانستان میں فوجی لحاظ سے حاصل کی گئی کامیابیوں کو مذاکرات کی میز پر ہارنے کو تیار ہو جائیں گے ،عبث ہے۔ البتہ افغان طالبان بھی اس طویل جنگ سے کچھ اکتا گئے ہونگے ۔وہ بھی چاہیں گے کہ مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکالا جائے۔امریکہ کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی کے افغان طالبان سے گہرے روابط ہیں اور وہ انھیں مذاکرات کی میز پر لا سکتی ہے ۔اس ضمن میں طالبان اور امریکہ کے مابین ابتدائی مذاکرات ماضی میں ہوتے بھی رہے ہیں ۔حال ہی میں روس نے ماسکو میں طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا تھا ۔لیکن عین آخری وقت پر افغان صدر یہ کہہ کہ طرح دے گئے کہ تاحال ان کی اس ضمن میں تیاری نہیں ہے لہٰذا 4ستمبر کو ہونے والے مذاکرات ملتوی کر دیئے گئے۔ مذاکرات کی اس میز پر روس نے بارہ ممالک جن میں امریکہ بھی شامل تھا کو مدعو کر رکھا تھا ۔ اس سے پہلے جولائی میں پاکستان، روس ،چین اور ایران نے اسلام آباد میں اجلاس کیا تھا جس کا مقصد افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے پر اتفاق کرنا تھا ۔اس پیچیدہ صورتحال میں امریکہ کا یہ توقع کرنا کہ ایک طرف تو پاکستان افغان طالبان کی ٹھکائی بھی کرے اور دوسری طرف ان کو مذاکرات کی میز پر بھی لے کر آئے یہ متضاد اہداف ہیں ۔تاہم اگر امریکہ اشرف غنی کی قربانی دینے کو تیار ہو تو شاید بامقصد مذاکرات ممکن بنائے جا سکیں ۔ آج ہونے والے مذاکرات کے بارے میں شاہ محمود قریشی کی حکمت عملی درست ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو شاہ محمود قریشی نے یہی فرمانا تھا کہ امریکہ کے توہین آمیز اور بلیک میلنگ پر مبنی رویئے کی وجہ سے مذاکرات منسوخ کیے جائیں لیکن اس وقت ہمارے زمینی حقائق اتنے گھمبیر ہیں کہ امریکہ کی گاجر اور ڈنڈے کی پالیسی (زیادہ تر ڈنڈا پالیسی ) طوہاًوکرہا ً برداشت کرنا ہی ہوگی ۔ پینٹاگون کے ایک سینئر عہدیدار Randall.G.Schriver نے واشنگٹن میں ’’کارنیج انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘‘ سیمینار سے خطاب کے دوران پاکستان سے امریکی توقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔امریکی عہدیدار کے مطابق دیگر امور کے علاوہ واشنگٹن کو پاکستان میں بڑھتے ہوئے چین کے مالی اثر ونفوذ پر تشویش ہے ۔انھوں نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ افغا نستان میں جنگ کے خاتمے سے پہلے پاکستان پر مزید پابندیاں لگائی جائیں گی ۔ موصوف نے اس تقریب میں یہ بھی کہا کہ امریکہ عمران خان کو موقع دینا چاہتا ہے اور اس حوالے سے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی وہ چاہتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن جائے،مزید یہ کہ عمران خان نے جو انتخابی مہم کے دوران باتیں کیں خاص طور پر بھارت کے حوالے سے جس مثبت رویے کا اظہار کیا اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔ Schriverکے بیان میں یہ مثبت بات تھی جس میں پاکستان کی دوطرفہ طور پر اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے ذریعے مددکرنے کا عندیہ دیا گیا ہے ۔لیکن تان وہیں آ کر ٹوتتی ہے کہ اسلام آباد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے ۔ اس نے برملا طور پر اعتراف کیا کہ پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد بند کرنے کا مقصد ہی اس پر افغانستان کے حوالے سے دباؤ ڈالنا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان تعاون کرے تو موجودہ دباؤ کی پالیسی پر نظرثانی بھی جا سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ملفوف اندازمیں ’حکم عدولی‘کی صورت میں پاکستان پر ایران کی طرز پر اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ جہاں تک’ سی پیک‘ کا تعلق ہے، اصولی طور پر تو یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ہمیںسابق حکومت کے دور میں ہونے والے ’سی پیک ‘معاہدوں کا بنظر غائر جائزہ لینا چاہیے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں کہا ہے کہ یہ صرف چین کا پراجیکٹ نہیں ہے اور اس میں تمام ملک اپنی مرضی سے شامل ہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے چین کے دورے کے دوران ’سی پیک‘ کے چند پراجیکٹس کو منسوخ کیا ہے کیونکہ ملائیشیا ان کی ادائیگی نہیں کر پائے گا ۔سی پیک‘ کے ہاتھوں مقروض ہونے کی شکایت مالدیپ اور سری لنکا بھی کر چکے ہیں۔ اگرچہ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ متذکرہ ممالک ’سی پیک‘ کی وجہ سے مقروض ہوئے ہیں اور درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ’ سی پیک‘ کے قرضے پاکستان سمیت ان ممالک کے مجموعی قرضوں کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ یقیناً چین ہر امتحان میں ہمارے ساتھ کھڑا ہوا ہے لیکن ہمیں پاکستان کے لیے چین کیساتھ انتہائی سودمند سٹرٹیجک اور اقتصادی رو سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے ۔ عمران خان بھی کہتے رہے ہیں کہ اس کے تمام پراجیکٹس میں پوری شفافیت ہونی چاہیے ۔آئندہ چند ہفتے نئی حکومت کی خارجہ اور اقتصادی پالیسی کی جہت کے حوالے سے انتہائی اہم ہونگے ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمیں بارہ ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پیکیج یا امریکی امداد مفت نہیں ملے گی یہی اس حکومت کا کلیدی امتحان ہے کہ اس گرداب سے پاکستان کو کیسے نکالتی ہے۔