ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو دامن چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی دیکھ اے دوست مری بے سروسامانی کو کیا کہیں ایسے بھی ہوتا ہے جیسا کہ یہاں ہو رہا ہے۔ اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے۔ ہر بات یہ رونے کو کہاں سے جگر آئے‘‘ کوئی کل سیدھی نہیں‘ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور پورا نظام ہی تلپٹ ہے۔ دوست نے بڑی اچھی بات کی کہ کوئی بھی حکومت ہو اس کی بنیادی دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ پہلی لا اینڈ آرڈر یعنی حفظ و امان بحال رکھنا دوسری انصاف‘ یہ عدالتی انصاف ہو یا سماجی انصاف۔ باقی معاملات میں سب مل کر کام کرتے ہیں۔ اس پر بھی بات کرتے ہیں مگر پہلے دو اساسی ذمہ داریوں میں سے ایک پر سپریم کورٹ کے اپنے ریمارکس پڑھنے کے لائق ہیں کہ ’’ملک میں نظام عدل تقریباً ختم ہو چکا ہے‘‘ اصل میں یہ بوگس چیک کیس تھا جس میں ملزم نے کہا تھا کہ اس کے چیک چوری ہو گئے تھے۔ جج کی بزلہ سنجی ہمیں اچھی لگی کہ ’’کیا چیک بھی چوری ہو جاتے ہیں؟‘‘ اور ہاں کچھ چیزوں کی چوری پر مقدمہ درج نہیں ہوتا جیسے دل کی چوری‘ واقعتاً جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے مگر وکیل پیروں کے نقش بنا دیتے ہیں۔مزے کی بات یہ کہ ملزم کا اکائونٹ 2017ء میں بند ہو گیا تھا اور چیک پر 2019ء کی تاریخ تھی۔ ظاہر ہے چیک دینے والے کی یہ شرارت تھی۔ جج نے کہا کہ جب تک ملزم گرفتار نہیں ہو گا فوجداری کیس میں فیصلہ نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا ملزم کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ یہ اچھا ہوا یہاں تک تو میں نے قارئین کی دلچسپی کے لئے مقدمہ بیان کر دیا مگر جج کا تاسف اور افسردگی میں یہ کہنا کہ انصاف کا نظام تقریباً پہلے ہی ختم ہو چکا ہے ایک ہلا دینے والی بات اور المناک حقیقت ہے۔ یقینا اس میں جہاں دوسرے عوامل ہیں وہاں سب سے بڑا حصہ پولیس کا ہے اصل میں ملزم کے پاس قیمت خرید ہے تو سب کچھ بکنے کے لئے تیار ہے۔ رشوت لیتا پکڑا گیا اور رشوت دے کر چھوٹ گیا۔ بات کسی اور طرف نکل گئی یا نہیں مگر پھیل ضرور گئی ہے کہ میں لا اینڈ آرڈر کی بات کرنا چاہتا تھا کہ اس میں ہر حکومت بری طرح ناکام ہوئی ہے کہ یہ کبھی بھی اس کی ترجیحات میں نہیں رہا۔ خاص طور پر ان دنوں لاک ڈائون میں کس طرح پولیس والے پیسے بناتے رہے ہیں۔ چھوٹے شہروں میں تو یہ اور بھی زیادہ تھا کہ مٹھی گرم کرو اور دکانیں کھول لو۔پھر کورونا کے حوالے سے پولیس کا رویہ بہت ہی افسوسناک نظر آتا ہے۔ لوگ رشوت دے کر اور ہاتھ جوڑ کر جان چھڑاتے ہیں کہ کہیں گھر ہی سیل نہ ہو جائے شکر ہے کہ ہیلمٹ کی طرح ماسک لازم نہیں تھا وگرنہ تو ہزاروں دھر لئے جاتے ۔ مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ تکلیف پہنچائی وہ کورونا کے مریض اور اس سے بھی زیادہ اس کے گھر والوں سے کورونا ٹیم کا سنگدلانہ رویہ ہے۔ مریض تو سمجھو جیتے جی مر گیا۔ حالانکہ اسے حوصلہ اور محبت چاہیے تھی کہ وہ مشکل سے نکل آئے۔ اس کے خاندان پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی کہ انہیں زبردستی اٹھا کر فضول قسم کے قرنطینہ سنٹرز میں لے جا کر پھنیک دیا گیا اور گھر سیل کر دیا گیا۔ یہ سب کیا ہے ؟ دوسری طرف اگر پرائیویٹ ہسپتال جائیں تو وہاں درندوں سے بھی کچھ زیادہ سفاک ڈاکٹرز۔ ایک ہسپتال والوں نے تو ایک امیر نوجوان سے کہا کہ جو نزلہ کا شکار تھا کہ وہ ان کے ہاں کمرہ لے لے وگرنہ وہ اوپر اس کے کورونا کی رپورٹ کر دیں گے۔ وہ بے چارہ کئی روز لاک اپ رہا۔ دو مرتبہ اس کا ٹیسٹ مثبت آیا اور وہ مثبت ہی آتا رہے گا جب تک کہ پیسے ختم نہیں ہو جاتے۔ ایسے ہی شعر موذوں ہو گیا: میں تو پانی تلک نہ مانگ سکا مجھ کو مارا مرے مسیحا نے بس یہاں تک ہی رہیں تو بہتر ہے اس سے آگے چلیں گے تو اور زیادہ تکلیف ہو گی۔ کھلے گا یہ کہ حکومت کے پاس بھی اختیار کہاں ہے اور تو اور ان کا اداروں پر بھی اختیار نہیں۔ کوئی اپنے دائرے میں نہیں۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ دائرہ ٹوٹ جائے تو باہر کی بلائیں حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ جہاں ڈسپلن ہے وہاں ایمانداری نہیں اور جہاں ایمانداری ہے وہاں ڈسپلن نہیں۔ بنیادی بات یہ کہ کسی میں خوف خدا نہیں۔ عاقبت پہ یقین نہیں اور بس دنیا کی ہوس۔ ہر طرف بے سکونی اور بے یقینی۔ آپ جن بے ایمانوں کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں تو آپ انہیں بے ایمانی سے کیسے روک سکتے ہیں۔ اسی لئے تو کسی کو سزا نہیں ہوتی جو جتنا بڑا چور اور ڈاکو ہے اسی قدر محفوظ ہے کہ بچانے والے صرف ڈیل اور فیس مانگتے ہیں۔ خدا کی قسم بندہ اس کرپٹ نظام کے بارے میں سوچتے سوچتے پاگل ہو سکتا اور کچھ نہیں۔ ہائے ہائے کاش میں اپنی ہی اصلاح کر لیتا مگر حوصلہ نہیں۔ بقول برنارڈ شاہ ایک بدمعاش کی کمی تو ہو جاتی: رائیگانی سی رائیگانی ہے یہ مرے عہد کی کہانی ہے دور کیوں جائیں ابھی ایک روز پہلے میں نے تذکرہ کیا تھا کہ ثریا عظیم ہسپتال میں کورونا کے لئے صرف تین ہزار کا ٹیسٹ رکھا گیا ہے اور ضرورت مندوں کے لئے مفت بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر میں افسردہ ہو گیا کہ انہیں ٹیسٹ کرنے سے روک دیا گیا کہ اجازت ملے گی تو تب ۔ ابھی انسپیکشن ہو گی جو نہیں ہو رہی اور ہو گی بھی نہیں۔دس ہزار کا ٹیسٹ کرنے والے آخر کہاں جائیں گے۔ہائے ہائے کہاں کہاں کاروباری ملی بھگت ہے۔ گورنر تک بے اختیار۔ ملک محمد شفیق صاحب نے بتایا ہے کہ اس کے باوجود کہ ان کے پاس مشینری بھی نئی ہے اور اچھا سٹاف ہے۔ اب کیا ہو گا؟ ردعمل اور بات بگڑے گی۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے خود بتایا کہ ان کے پاس بھی ماسک اپنے ہیں۔ ایک ماسک 48گھنٹے کے بعد استعمال کے قابل ہوتا ہے۔ ان کے پاس چار ماسک اپنے ہیںجو وہ بدل بدل کر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ڈیوٹی سے کتراتے ہیں اور نتیجتاً کورونا کو چھوڑیے‘ دوسری امراض کے مریض بھی ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے کہ ان سے کورونا ٹیسٹ کا پوچھا جائے گا یا اس طرف ڈال دیا جائے گا۔ حیرت ہے لوگ ہسپتال جانے سے ایسے ہی ڈرتے ہیں جیسے شریف زادے تھانے جانے سے ڈرا کرتے تھے۔ ایک وبا کورونا ہے مگر اس سے بڑی وبا لا اینڈ آرڈر اور انصاف کا نہ ہونا ہے۔ وہی کہ ظلم پر تو کام چل سکتا ہے۔ ناانصافی پر نہیں۔ یہاں اکیلا عمران کیا کرے گا۔وہ وہی کچھ کرے گا جو ہم چاہتے ہیں۔ کاروبار زندگی تو بند نہیں ہو سکتا۔ پھر پولیس والوں کو بھی تو بھگتانا ہے۔ بس اللہ ہم پر رحم کرے۔