جو بھٹکتا ہے مری راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے یہ کیا ہے کہ سیدھا چلنے کا زمانہ ہی نہیں اور راست دیکھنے کا‘وہی کہ ’’الٹا لٹکو گے تو سیدھا نظر آئے گا‘‘ حالات نے ہر شے کی ہیت قذائی بدل کر رکھ دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے موجودہ ابتری میں بندہ منیر نیازی کی طرح ہی سوچتا ہے۔ عادت ہی بنا لی ہے تونے تو منیر اپنی ۔ جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا۔ ایک ہی طرح کے دگرگوں حالات دیکھ کر بندہ اکتا تو جاتا ہے بلکہ بعض معاملات میں پتھرا جاتا ہے۔ معزز قارئین پوری اخبار پڑھ جائیں آپ کو کوئی سکون آور خبر نہیں ملے گی۔ بعض اوقات اکا دکا خبر ایسی نظر نواز ہو جاتی ہے کہ آپ کا تھوڑا سا کتھارسز ہو جاتا ہے ۔ مثلاً میں ابھی 92نیوز دیکھ رہا تھا کہ ایک ننھی سی خبر سامنے آ گئی کہ اوکاڑہ میں ایک شہری کی پانچویں شادی کے نتیجہ میں چوتھی بیوی نے اس کی پٹائی کر دی یعنی پھینٹی لگا دی۔ بے ساختہ دل نے کہا کہ بہت اچھا کیا اس بدبخت کو تو گدڑ کٹ لگانی چاہیے تھی۔اوئے اللہ کے بندے تجاوزات کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ملکی صورت حال دیکھ کر بے چاری ایک بیوی کا خرچہ اٹھانے سے قاصر ہیں بلکہ اس گرانی میں کتنے چھڑے شادی کا سوچ سوچ کر رہ جاتے ہیں۔ یہ خبر ویسے بھی شادی شدہ لوگوں کے لئے وارننگ بھی ہے۔ مجھے حیرت تو اس مرد بے نیاز پر ہے کہ ملکی حالات کتنے پریشان و دگرگوں ہیں کہ ایک طرف کورونا کا رونا اور دوسری طرف کسی قانون و قاعدے کا نہ ہونا سب کو بے کل کیے ہوئے ہے اور اس ناہنجار کو پانچویں شادی کی سوجھ رہی ہے۔ ایسا تو ہم نے صرف کتابوں میں پڑھا تھا کہ انگریز شاعر جوجفری چائوسر کی کنٹربری ٹیلزمیں ایک خاتون مسز باتھ نے پانچ شوہر کر رکھے تھے وہاں معاملہ الٹ تھا۔ اب آتا ہوں میں آج کے منظرنامے کی طرف کہ جہاں حکومت تو کہیں نظر نہیں آتی مگر لوگوں کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں کسی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اوپر سے وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ عیدالضحیٰ سادگی سے منائی جائے گی۔ قبلہ آپ نے عوام کو جس حال میں پہنچا دیا ہے ان کے لئے تو گزر بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے کونسی عیدیں اور کون سی شبراتیں۔ وہ دن خواب ہوئے روز کوئی مسئلہ سامنے آ جاتا ہے گرانی نے زندگی کو گراں کر دیا ہے: کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر خان صاحب کتنے رسان سے کہتے ہیں کہ ہم مشکل وقت سے تو نکل آئے اور اب عیدالفطر کی طرح لاپروائی ہوئی تو کورونا دوبارہ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ خان صاحب خدا کے لئے بس کریں لوگوں کو جینے دیں۔ لوگ سب کچھ جان گئے اور سیکھ گئے آپ لوگوں کو خوفزدہ کر کے اپنا الو سیدھا کئے جا رہے ہیں۔ ایک تو لوگ اس وبا کے ڈر اور اثرات سے نڈھال اور اوپر سے آپ نے پٹرول کا ایسا خوفناک ٹیکہ ان کو لگایا کہ ابھی تک اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی سے وہ بلبلا رہے ہیں۔ بس یہی لگتا ہے کہ ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔ میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔ اب پٹرول بحران کی تحقیق ہو رہی ‘ ہوتی رہے عوام تو مارے گئے وہ کہتے ہیں کہ فیصلے میں بیڈ گورنس لکھا جائے گا۔ تو بھائی اس سے کیا ہو گا۔ بیڈ گورنس تو اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے صرف زندگی ہی تنگ نہیں کی گئی مسلمانوں کو روحانی اور ذہنی طور پر بھی ٹارچر کیا جا رہا ہے یہ کسی ایجنڈے کا حصہ ہے یا ان باطل فکر لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے کبھی ختم نبوت کے حوالے سے کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا اور اب مندر کا مسئلہ انتشار کی بنیاد بنا دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ منصوبہ بندی باقاعدہ ہے اب دیکھیے ناں وہی مادر پدر آزاد کروڑوں مسلمانوں کی اسلامی ریاست میں وہ مندر کے حق میں بینر لے کر اسلام آباد میں باہر نکلے اور بکا ہوا میڈیا تو پہلے ہی انتظار میں ہے۔ مسلمانوں کو باقاعدہ اذیت دی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر حکیم سعید صاحب کی پیشین گوئی سچی ثابت ہو رہی ہے کہ جناب آئے نہیں انہیں پوری تیاری اور اہتمام سے لایا گیا ہے کتنی دل خراش بلکہ روح فرسا بات ہے کہ قرآن کی تعلیم کو آئین کے مطابق لاگو کیا جائے تو اس کے خلاف مغرب زدہ اور مذہب بے زار دانشور ساڑ پھونکنے لگیں اس میں حضرت قائد اعظم اور علامہ اقبال کے حوالے لے کر آئیں اور پھر اس ربانی کلام کی توہین کرنے سے بھی باز نہ آئیں۔ تکلیف انہیں یہ ہے کہ قرآن آج کے نوجوان کی زندگیوں کا حصہ نہ بن جائے۔ قرآن کی بات کتنی برحق اور سچ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ یہ آیات کو مسلمانوں سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ وہی بات کہ انا ‘ ہٹ دھرمی عناد بغض اور مسلمان دشمنی پھر اور مہر لگانا کس کو کہتے ہیں اور دل کا پورا سیاہ ہونا کیا ہے۔ اقبال نے تو یہ کہہ کر قلم توڑ دیا کہ: گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قراں زیستن جس نے قرآن کو اپنے اندر اتار لیا اس کو اپنا شعار بنا لیا۔ اس کے قالب میں ڈھل گیا اور جس نے اسے زندگی کا لائحہ عمل بنا لیا وہ کامیاب ہو گیا بلکہ اس نے انسانیت کی معراج پا لی۔ میرے پیارے اور معزز قارئین!بات یوں ہے کہ غریب پس رہا ہے اور سفید پوش گھبرایا ہوا ہے بلکہ سہما ہوا ہے کاروبار کھلنے کے باوجود رواں نہیں ہوئے‘ خاص طور پر تعلیمی اداروں کے اردگرد چھوٹے چھوٹے کاروبار بری طرح متاثر ہوتے ہیں بلکہ بعض تو کرایہ نہ دے سکنے کے باعث دکانیں چھوڑ گئے ہیں۔ ایس او پیز کے تحت سکول اور کالج کھولے جا سکتے ہیں۔ حکومت کرتے کرتے انہیں 15ستمبر تک لے گئی ہے اور پتہ نہیں تب کیا بہانہ بنائیں گے۔ایسا لگتا ہے کہ ان کو صرف حکومت کرنی ہے کوئی مرے یا جیئے۔ ان کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں بچے تعلیمی حوالے سے برباد ہو رہے ہیں تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے اپوزیشن بھی اپنی سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے پتہ نہیں یہ مراد سعید نان سٹاپ لایعنی باتیں کرنے والے کدھر سے آ گئے چلو ایک نصیبہ چنا نے مراد سعید کی مراد پوری کر دی کہ اس کو مائیک دے مارا۔ اچھا یہ ایک دوسرے کو سزا دیں کہ عوام تو کب سے بھگت رہے ہیں ویسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نصیبہ چنا نے مراد کے نصیب جگا دیے۔ ایسے انور مسعود کا شعر یاد آ گیا۔ اچھی طرح یاد نہیں اندازے سے لکھ رہا ہوں: گزرا ہوں اس گلی سے پھر یاد آگیا اس کا وہ التفات عجب التفات تھا رنگیں ہو گیا تھا بہت ہی معاملہ پھینکاجب اس نے پھول تو گملا بھی ساتھ تھا