لاہور (رانا محمد عظیم )حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا بھرپور احتجاجی تحریک چلانے اور اسلام آ باد لاک ڈائون کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے اندر ہی اختلافات پیدا ہو گئے ، ن لیگ ،پیپلزپا رٹی جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے اہم رہنمائوں نے اپنے پارٹی اجلاسوں کے اندر اس کی مخالفت شروع کر دی جبکہ مولانا فضل الرحمان، پیپلزپا رٹی کے چند رہنما اور محمود خان اچکزئی گروپ ہر صورت میں احتجاج کرنے کیلئے زور ڈالنے لگے ۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے اندر تو واضح طور پر نہ صرف اس پر تقسیم شروع ہو چکی ہے بلکہ کئی سینئر ارکان نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ اس لاک ڈائون کے کامیاب اور ناکام ہونے کی دونوں صورتوں میں ہمیں ہی نقصان ہو گا، اس لاک ڈائون کی وجہ سے جمہوری بساط لپیٹ دی گئی تو سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہی ہو گا اور عمران خان مظلوم بن کر مزید طاقتور بن جائے گا جب کہ اس سے فائدہ صرف دو سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خود تو پارلیمنٹ سے باہر ہیں اب ہمیں بھی اس کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ با وثوق ذرائع کا کہنا ہے خود میاں شہباز شریف بھی اس کے خلاف ہیں کہ کسی قسم کا بھی لاک ڈائون کیا جائے ۔پیپلزپا رٹی کے اندر بھی ایک بہت بڑا حلقہ بھی اس کے سخت خلاف جا رہا ہے اور پیپلزپا رٹی کی نجی میٹنگز میں وہ واضح کہہ رہے ہیں کہ ایسا کرنے سے وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے پارٹی اور جمہوریت کو نقصان ہو گا۔ ن لیگ کے اندربہت سے سینئر ذمہ داران کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں مولانا فضل الرحمان اور پیپلزپا رٹی سے استعمال نہیں ہو نا چاہئے ۔باوثوق ذرائع کا کہنا ہے مو لانا فضل الرحمان کی تیسری مرتبہ پھر متحدہ اپوزیشن بنا کر حکومت کے خاتمہ کی تحریک اختلافات کی نظر ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ دوسری جانب حکومتی جماعت تحریک انصاف کے اہم رہنمائوں نے بھی اس کا توڑ شروع کر دیا ، ذرائع کے مطابق کئی ایسے اراکین اسمبلی سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں جو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر اپنی قیادتوں سے اختلاف رکھتے اور وقتی طور پر خامو ش ہیں ،ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر متحدہ اپوزیشن اکٹھی ہو کر لاک ڈائون کی طرف جاتی ہے تو اس صورت میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے کئی اراکین اسمبلی باقاعدہ اپنی پارٹیوں کے خلاف کھل کر حکومت کی حمایت میں آ جائیں گے ۔