جتھوں میں بٹایہ معاشرہ بتدریج انارکی کو بڑھتا جاتاہے۔ ایک ہمہ گیر اخلاقی اور علمی تحریک لازم ہے ، آبادی کے تمام طبقات جس میں خوش دلی سے شریک ہوں ۔ جاگنا چاہئیے ، جاگ اٹھنا چاہئیے ، اس سے پہلے کہ آندھی میں گردو غبار ہم ہو جائیں ۔ عارف نے کہا تھا: خلوصِ قلب سے جب ہم دعا مانگتے ہیں تو احساس ہوتاہے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے ، کوئی ہمارا سائباں ہے ۔انسانوں کا پروردگار اگر غفور الرحیم ہے اور یقینا ہے تو آئے دن اذیت پہنچانے والے المناک حادثات کیوں برپا ہوتے ہیں ۔ ملک اور معاشرے کیوں دکھ جھیلتے ہیں ۔عارف کا جواب یہ ہے : زندگی اتنی ہی ہموار ہوگی ، جتنا کہ کوئی شخص یا سماج فطرت سے ہم آہنگ ہوگا ورنہ اتنی ہی بے چینی ، اتنا ہی انتشار۔ اتفاق سے اس دن میں بیدار تھا ۔ اتفاق سے اس دن ٹی وی کھلا تھا، جب ماڈل ٹائون میں منہاج القرآن پر پولیس نے چڑھائی کی ۔ اس دن کے المناک واقعات ذہن پر نقش ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ۔ اتفاق سے آج بھی کھلی آنکھوں سے رحیم یار خاں اور لیاقت پور کے درمیان اس حادثے کے مناظر ٹھیک اسی وقت دیکھے، جب رونما تھے ۔ پہلی اطلاع یہ تھی کہ نو مسافر جاں سے گزر گئے ۔پھر لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ پہلی خبر شیخ صاحب نے دی کہ حادثہ سلنڈر پھٹنے سے ہوا ۔ پھر ایک صاحب نے کہا کہ آگ بجلی کے نظام میں خرابی یعنی شارٹ سرکٹ سے ہوئی ۔پاکستان ریلوے کے ایک ممتاز افسر کو فون کیا ، جس کی دیانت اور صداقت شعاری کے بارے میں وہی بات کہہ سکتا ہوں جو اُس جج کے بارے میں جسٹس افتخار چوہدری نے کہی تھی ’’میں اپنی قسم نہیں کھاتا لیکن جسٹس افتخار چیمہ کی دیانت داری کی قسم کھا سکتا ہوں ۔‘‘ اس سے پوچھا : فرزند ، معاملے کی سچائی کیا ہے ؟ جواب یہ تھا: بالکل واضح ہے کہ سلنڈر پھٹنے سے آگ لگی ۔ شارٹ سرکٹ سے لگی ہوتی تو اس تیزی سے ہرگز نہ پھیلتی ۔ ردّعمل کے لیے مہلت ہوتی ۔ لوگ اس طرح جھلس کر نہ مرتے ۔تباہی اس بڑے پیمانے پر نہ پھیلتی ۔ مزید برآں یہ کہ سلنڈر وں کے ٹکڑے سامنے پڑے ہیں ۔ مدد کرنے والے بروقت پہنچے ۔ سب سے پہلے پرویز الٰہی کے قائم کردہ 1122والے ۔ پھر فوج کے باہمت جوان اورمحکمے کے لوگ بھی ۔ اس کے باوجود اتنے مسافر جاں بحق اور اتنے شدید زخمی ۔ پوچھا کہ ریل گاڑی کے ڈبے میں سلنڈر پہنچا کیسے۔دہشت گردی کے دو عشرے بیت چکے۔ جہاز جیسی نہ سہی مگر ریل گاڑیوں میں بھی کچھ احتیاط تو برتی جاتی ہے ۔ سامان پر نگاہ رہتی ہے ۔ جواب ملا:تبلیغی جماعت والے پوری بوگی بک کراتے ہیں ۔ ریل کے اہلکاروں کو وہ ڈبے میں گھسنے نہیں دیتے ۔ آخر کیوں ؟ اس کے بقول، اس لیے کہ یہ ایک کاروبار ہے ۔ فرض کیجیے، چالیس سیٹوں والا ایک ڈبہ بک کرایا گیا مگر ممکن ہے کہ مسافروں کی تعداد پچاس ہو ۔ جس آدمی کو انتظام سونپا گیا ہے ، اس نے روپیہ کمانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے ۔ تبلیغی اجتماع میں لوگ اپنی آخرت سنوارنے جاتے ہیں مگر انہی میں دنیا سنوارنے والے بھی ہوتے ہیں ۔ جس طرح کاروبار کرنے والے، وی آئی پی عمرے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ شاہ فیصل کی شہادت پہ گریاں ، غائبانہ نمازِ جنازہ کے لیے لاہور کے ماتم گزار گھروں سے نکلے توکسی کو انہوں نے شہید کی تصویریں بیچتے دیکھا ۔ کاروباری ذہن اسی طرح سوچتا ہے ۔ مالک بن اشترؒ کے نام حضر ت علی کرم اللہ وجہ نے ایک خط لکھا تھا۔ کارِ جہاں بانی پر جسے اہم ترین دستاویز ات میں سے ایک سمجھاجاتاہے ۔دوسرے اہم نکات کے علاوہ تاجروں پہ نگاہ رکھنے کی آ پ نے ہدایت کی ۔ اشارہ یہ ہے کہ ان کی نفسیات میں منافع طلبی غالب ہوتی ہے ۔ اقتصادی زندگی کے بنیادی اصول ایڈم سمتھ نے دریافت نہیں ، مرتب کیے تھے ۔ ہمیشہ سے آدمی یہ جانتا تھا کہ منافع خوروں کی دست برد سے عام آدمی کو بچانا حکومت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ۔ ہزاروں برس پہلے آدمیت نے حکومت کا ادارہ اسی لیے تشکیل دیا تھا ۔ اسی لیے اپنے بہت سے حقوق سے وہ دستبردار ہوا کہ طاقتورکا ہاتھ روکنے کے لیے حاکم درکار ہوتے ہیں ۔ اب یہ معاشرے کی علمی ، سیاسی اور اخلاقی حالت پر ہوتاہے کہ حکومت ظالم کا ہاتھ پکڑتی ہے یا نہیں پکڑتی۔ ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً بعد اپنے پہلے خطبے میں جانشینِ رسولؐ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے جو کچھ ارشاد کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے : تمہارا کمزور میرے نزدیک طاقتور ہے ، جب تک اس کا حق میں اسے دلا نہ دوں ۔ حکومت ضروری ہے ، بہت ہی ضروری ۔ اتنی ضروری کہ اللہ کے آخری رسولؐ نے بد شکل حبشی حکمران کی اطاعت کو بھی لازم قرار دیا ۔ ظاہر ہے ، فر دکی نہیں ، قوانین کی اطاعت ۔ یہ قوانین کون نافذ کرے گا ۔ 22کروڑ انسانوں کے اس ملک میں حکومت بہت کمزور ہو چکی ۔ اوّل تو فیصلے صادر ہی نہیں کرسکتی ۔ کر لے تو نفاذ کی صلاحیت سے محروم ۔ ایک نہیں ، یہ ہر حکومت کا المیہ رہا ۔ خود قائدِ اعظم ایسے جلیل القدر حکمران کے دور میں جائیدادوں کی الاٹمنٹ میں بڑے پیمانے پر گھپلے ہوئے ۔ گھپلے کیا ، لوٹ مار ۔ ایک ڈ یڑھ ارب روپے کی جائیدادیں مسلمان چھوڑ کر آئے تھے اور اندازہ ہے کہ بائیس ارب کی جائیدادیں ہندو چھوڑ گئے تھے ۔ صدیوں کے بعد نئی آزادی اور کمزور سرکاری ڈھانچہ ۔ ہمیشہ سے بدگمانی پہ مبنی ریاست اور رعایا کا تعلق ۔ ٹیپو سلطان ایسی مستثنیات کی بات دوسری ہے ، بر صغیر کبھی ایک مہذب معاشرہ نہ تھا۔ سلطانی ء جمہور محض ایک تصور ہی ۔ وہ بھی مغرب میں صنعتی انقلاب اور نشاۃِ ثانیہ کے بعد انگریزوں کی حکمرانی میں ابھرا۔درحقیقت تو یہ ہمارااپنا سرمایہ تھا۔ ہمارے عہدِ اوّل کی یاد گار کہ مغرب نے بھی عالم ِ اسلام ہی سے فیض پایا تھا۔اوّل اوّل آکسفرڈ میں ڈیکارٹ کے نام پرامام غزالیؒ پڑھائے جاتے رہے ۔عالی جناب نے ترجمہ کیا اور حوالہ تک نہ دیا ۔ کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول نہیں دیا ۔تمام کے تمام مذاہب سے آئے ہیں اور اسلام کے سوا سب مذاہب منسوخ ہو چکے ۔ سچ پوچھیے تو ایک قوم کی حیثیت سے جمہوریت اور آزادی کے تقاضوں کا ہمیں کبھی ادراک نہ تھا۔آزادی اپنے ساتھ ذمہ داری کا احساس نہ لائے تو وحشت کوجنم دیتی ہے ۔اوّل دن سے ہم اس کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی بڑھتی جاتی ہے ۔ تعلیم، شعور اور اخلاقی اقدار کارفرما نہ ہوں تو سیاسی پارٹیاں سیاسی پارٹیاں نہیں ، جتھے بن جاتی ہیں ۔ ایک مہذب جمہوری معاشرے کا مطلب ہے، ایک خوش دلانہ عمرانی معاہدہ ۔ آئین اور قوانین کا دل و جان سے احترام ۔قوانین کا احترام اور رواداری ۔ عجیب ملک ہے ، عجیب معاشرہ ہے ۔ دنیا میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد اور شرح شاید سب سے کم ۔ جو بھی ذرا سا آسودہ ہے ، طرزِ زندگی شاہانہ ۔ مکان ، فرنیچر ، لباس ، گاڑی اور شادی پر ایسا ہولناک اسراف اوردکھاوا کہ خدا کی پناہ ۔ احساسِ کمتری اور احساسِ عدم تحفظ ۔ وہ آدمی حبّ ِ وطن کا دعویٰ کیسے کرتاہے ، جسے ٹیکس چوری میں کوئی تامل نہیں ۔ پیسہ اگر حکومت کے پاس نہ ہو تو ملک کا دفاع وہ کیسے کرے گی ؟ اچھا ہسپتال اور اچھا سکول کیسے قائم ہوگا ۔ تعلیم اور صحت اسی لیے اب نجی کاروبار ہے اور کاروبار میں مروّت کیسی ۔حکومت کمزور ہے ، زیادہ سے زیادہ اپنا کچھ دفاع کر سکتی ہے یااہلِ رسوخ کا ۔ جتھوں میں بٹایہ معاشرہ بتدریج انارکی کو بڑھتا جاتاہے۔ ایک ہمہ گیر اخلاقی اور علمی تحریک لازم ہے ، آبادی کے تمام طبقات جس میں خوش دلی سے شریک ہوں ۔ جاگنا چاہئیے ، جاگ اٹھنا چاہئیے ، اس سے پہلے کہ آندھی میں گردو غبار ہم ہو جائیں ۔