پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے رویے اور اس حکومت کی ڈانواڈول پالیسیوں پر غلام ہمدانی مصحفی کا ایک مشہور شعر یاد آتا ہے، مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا گویایہ جماعت اب مرحوم مصحفی کے دل کی طرح جگہ جگہ رفو کا تقاضا کر رہی ہے -اسی سے متعلق ایک اور شعر مرحومہ پروین شاکر کا بھی یاد آرہا ہے، ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا اقتدار میں آئے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کولگ بھگ چودہ مہینے بیت گئے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ عوام اس جماعت کی حکومت اور نہ ہی اس کی قیادت سے خوش ہے۔ لوگ پہلے سمجھتے تھے کہ اقتدارمیں آکر پی ٹی آئی کی حکومت صرف معاشی بحرانوں کا سامنا کرے گی لیکن اب یہ بات بھی سب پر عیاں ہوگئی کہ یہ جماعت ہر گزرتے دن کے ساتھ شدید بحرانوں سے بھی دوچار ہورہی ہے ۔ پہلے ہم سب کا خیال تھا کہ زخم ایک ہی ہے جو رفتہ رفتہ مندمل ہوجائے گا لیکن اب پوری قوم کویقین ہوگیا ہے کہ زخم بھرنے کے بجائے الٹا ناسور میں بدلتا جارہا ہے۔ اس ملک کی آدھی آبادی اب بھی عمران خان حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ان کی حکومت میں ہونے والی بے قابو مہنگائی سے اتنے تنگ نہیں جتنا کہ وہ ان کے اور ان کے وزرا کے ہتک آمیز رویے پر برہم ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے لگام مہنگائی کواگر حکومت کی مجبوری پر محمول کیاجائے تو بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس جماعت کی قیادت اوردیگر ذمہ داران کے اخلاقیات سے عاری تقریریں، ہتک آمیز رویے اور غیر سنجیدہ طرزِ سیاست بھی ایک مجبوری ہے؟ عمران خان نے دھرنے کے زمانے میں جو ہتک آمیز بیانات شروع کیے تھے، بدقسمتی سے وزارت عظمیٰ کے ذمہ دار ترین منصب تک پہنچ کر بھی انہوں نے اس عمل کو موقوف نہیں کیا۔امریکہ گئے تب بھی وہاں سے دھمکیاں بھیج رہے تھے کہ وطن واپس جاکر جیل میں نواز شریف کے کمرے سے ٹی وی اور اے سی بھی نکالوں گا ۔ آصف زرداری کو بھی للکار کے کہا تھا کہ آپ کو بھی اسی جیل میں رکھیں گے جہاں ٹی وی ہوگا اور نہ اے سی۔ایسے محاذوں پر ایک سیاسی لیڈر پلس وزیراعظم کو بھارت جیسے حریفوں اورایف اے ٹی ایف کے چنگل سے آزادی کی جنگ لڑنی چاہیے نہ کہ جیل والوں سے۔مولانا فضل الرحمان کے متوقع آزادی مارچ کے حوالے سے وہ ایک طرف مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے کر مولانا کی آزادی مارچ سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے اور دوسری طرف مولانا ڈیزل کے طعنے بھی دیتے رہتے ہیں، یاللعجب ۔اٹک اور اسلام آباد میں کنٹینرز پہنچائے لیکن اگلے دن اعلان کیا کہ مولانا کو مارچ کی اجازت دینگے مگر وزارت عظمی سے استعفیٰ نہیں دوں گا۔’’امور حکومت‘‘ چلانے کیلئے انہوں نے جس ٹیم کا انتخاب کیا ہے اس میں شامل لوگ بھی ہر حوالے سے قابل ہیں الا ماشااللہ ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جیل کی سلاخوں کے پیچھے قریب المرگ ہیں۔خون میں پلیٹ لیٹس کی سطح لاکھوں سے گر کرچھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہے اور معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان بر سر بازار جملے کس رہی ہیں کہ میاں صاحب کا خون مرغن غذائیں اور نہاری کھانے کی وجہ سے پتلا ہوگیا ہے ۔ زلزلہ آتا ہے تو یہ صاحبہ بول اٹھتی ہیں کہ اصل میں زمین بھی پی ٹی آئی حکومت کی تبدیلی کا بوجھ اٹھانے سے عاجز ہوکر لرزتی ہے ۔ فیصل واوڈا ہو یا فواد چودھری اور علی امین گنڈاپور۔وزیراعلی محمودخان ہو ،علی محمد خان ہو یا مراد سعید اور زرتاج گل بی بی سبھی نے بہت کم عرصے میں گفتار کے بڑے عجیب وغریب پھول کھلائے ہیں۔ آج خبر آئی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سابق صوبائی وزیر صحت اور سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت ختم کرکے نادر ا سے اُن کا قومی شناختی کارڈ تک بلاک کروایاہے۔ پشتو ضرب المثل یاد آیا، کہا جاتا ہے کہ’’بے وقوف اپنے مخالف کا کام اتنا نہیں بگاڑتاجتنا کہ وہ اپنے آپ کوچت کردیتا ہے ۔