اسوقت ملک بھر میںلاقانونیت کا دور دورہ ہے۔قانون شکنی کرنے والوں کے سامنے وفاقی اورصوبائی حکومتیں نیم مفلوج حالت میںہیں۔ لوگ دھڑلے سے بجلی چوری کرتے ہیں‘روزمرہ استعمال کی اشیامہنگی بیچتے ہیں‘ ملاوٹ کرتے ہیں‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر علاقہ میں مسلک اور لسانیت کے نام پر ایسی تنظیمیں بنالی گئی ہیں جو ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتی رہتی ہیں۔ یہ تنظیمیں چندہ کے نام پر عوام سے جبری بھتہ اکٹھا کرتی ہیں‘ زمینوں کے قبضوں اور دیگر غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں لیکن انتظامیہ انکے سامنے بے بس ہے۔ جس شعبہ زندگی پر حکومت قانون نافذکرنا چاہتی ہے اس سے تعلق رکھنے والے لوگ ہڑتالیں اور احتجاج کرکے حکومت کی رٹ کو نافذ نہیں ہونے دیتے۔ جنرل ضیاالحق کے فوجی دورِ حکومت کے بعد انیس سو نوّے کی دہائی سے حکومتی عملداری روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔ آج ملک بھر میں حکومتی عملداری جتنی کمزور ہوچکی ہے اسکے پیچھے ا ور عوامل کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ ضلعی انتظامیہ سے عدالتی اختیارات کی علیحدگی ہے۔ چند سو سال پہلے تک دنیا بھر میں بادشاہت کا نظام رائج تھاجس میں بادشاہ قانون ساز ‘ انتظامی سربراہ اور اعلی ترین عدالت کا درجہ رکھتا تھا۔ جو بادشاہ جتنا مستعد ہوتا اسکے ملک کا نظم و نسق اتنا ہی اچھا ہوتا تھا۔بادشاہ کی تفویض کردہ اتھارٹی سے اسکے نائبین اور صوبیدار بھی یہ تینوں اختیارات استعمال کرتے رہے۔ جج (قاضی) کے عہدے بھی ہوتے تھے لیکن حتمی عدالتی اتھارٹی بادشاہ ہی تصور کیا جاتا تھا۔ ہزاروں سال تک دنیا میں یہ نظام چلا۔ یورپ میں خصوصا برطانیہ اور فرانس میں جب جمہوریت کا سلسلہ شروع ہوا تو ان تینوں اختیارات کی علٰیحدگی کا تصور پیدا ہوا۔ اب جمہوری معاشروں میں ریاست کے یہ تینوں ستون الگ الگ اور آزادانہ کام کرتے ہیں۔تاہم پارلیمانی جمہوری نظام میں ریاست کے مختلف اداروں کی مکمل علیحدگی نہیں ہوتی کیونکہ وزیراعظم انتظامیہ کا سربراہ یا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے اور پارلیمان کا رکن بھی ۔اسکی کابینہ کے تمام ارکان پارلیمنٹ سے ہوتے ہیں جو مختلف حکومتی محکموں کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہی صورت صوبوں میں ہوتی ہے ۔ وزیراعلی اور صوبائی کابینہ صوبائی قانون ساز ادارہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یوںقانون ساز ادارہ اور انتظامیہ میں علیحدگی نہیں ہوتی۔ البتہ یورپ کے ملکوں میں سیاسی کلچر ایسا ہے کہ ارکان پارلیمان انتظامیہ کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرتے ۔ہمارا سیاسی کلچر ان ملکوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے سیاسی ماحول میں ارکان صوبائی و قومی اسمبلی قانون سازی سے زیادہ انتظامی امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے معاشرتی ‘ عمرانی حالات یورپ اور امریکہ کے جدید معاشروں سے بہت مختلف ہیں۔ ہمارے ملک کے اکثر علاقے بشمول اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب جاگیرداری نظام کے شکنجے میں ہیں جہاں انسانوں کی اکثریت نیم غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ میں قبائلی نظام ہے۔وسطی‘ شمالی پنجاب میں برادری نظام کی گہری جڑیں ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہر کسی قدر جدید کہلائے جاسکتے ہیں لیکن یہاں رہنے والے بھی جاگیردارانہ ‘ قبائلی رسم و رواج اور اقدار کی پاسداری کرتے ہیں۔پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ ایسا ہے جس میں مغربی ملکوں کی نسبت تنہا فرد کی اہمیت نہیں بلکہ خاندان کی اہمیت ہے۔ کسی اچھے ‘ برے کام کی ذمہ داری صرف فردپر عائد نہیں ہوتی بلکہ اسکا پورا خاندان ملوث ہوتا ہے۔ کوئی لڑائی‘ جھگڑا یا تنازعہ ہوتا ہے تو سارا خاندان یا خاندان کے کئی افراد ملکرصورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ امریکہ‘ یورپ میں ایسا نہیں ہے۔وہاں تنہا فرد ہی ہر عمل کا ذمہ دار ہے۔ وہاں پسند کی شادی کی جائے تو غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوتے۔ وہاں کاروکاری‘ ونی ایسی رسوم کا وجود نہیں۔ وہ معاشرے جنکی نقل میںہم نے پارلیمانی جمہوری نظام اختیار کیا ہے ہائی ٹیک معاشرے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو ابھی ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی بھی نہیں پہنچی۔ پاکستان میں پانچ کروڑ لوگوں کو بیت الخلا تک کی سہولت دستیاب نہیں۔لوگ کھلے کھیتوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ نصف سے زیادہ آبادی کو پینے کا صاف پانی اورگندے پانی کے نکاس کی سہولتیں دستیاب نہیں۔ سرکاری طور پر بنیادی خواندگی کی شرح ساٹھ فیصد بتائی جاتی ہے لیکن عملی طور پر یہ اس سے بہت کم ہے۔ایسے معاشی طور پر پسماندہ اور جاگیردارانہ‘ قبائلی اقدار والے ملک میں ہم نے جدید‘ ترقی یافتہ‘سیکولر ملکوں والا ریاستی نظام اختیار کرلیا ہے۔ ظاہر ہے یہ نظام کامیابی سے چل نہیں سکتا۔مغربی نظام اورہمارا دیسی معاشرہ دو مخالف سمتوں میں سفر کررہے ہیں۔ ہماے خطہ کے ٹھو س زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی حکمرانوں نے برصغیر پاک و ہند میں ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا جس میں ضلعی انتظامیہ کے افسروں کو بہت با اختیار بنایا گیا تھا۔مجسٹریٹ اورڈپٹی کمشنر کے انتظامی عہدوں کو محدود عدالتی اختیارات دیے گئے تھے جن کی مدد سے وہ حکومت کی عملداری قائم کرتے تھے۔ 1970کی دہائی تک تو مجسٹریٹ کو یہ اختیارات بھی تھے کہ وہ قتل کے مقدمہ کی ابتدائی سماعت کرسکتا تھا۔ہم نے اپنے ملک کے معاشی اورمعاشرتی حقائق کو نظر انداز کرکے1973 کا آئین بنالیا جس میں انتظامیہ اور عدلیہ کی مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا۔انیس سو نوّے کے اوائل تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ انیس سو چورانوے میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دے دیا کہ انتظامی اور عدالتی میجسٹریٹس الگ الگ کردیے جائیں۔ اب سول ججوں کو عدالتی مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہیں۔ انتظامی افسرا ن اور پولیس حکومتی رٹ نافذ کرنے میں ان ججوں کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کی پابند ہے۔ ہر قانون شکن شخص ہمارے پیچیدہ قانونی نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ غیرقانونی کام کرنے پر سزا کا تصور ختم ہوچکا ہے۔ انتظامیہ اور عدلیہ کی مکمل علیحدگی پاکستان ایسے قبائلی‘ جاگیرداری معاشرہ میں ایک غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک موجودہ لاقانونیت اور افراتفری کی حالت سے باہر نکلے‘ ریاست کی عملداری قائم ہو تو ہمیں آئین میں ترمیم کرکے انتظامیہ اور عدلیہ کی شق کو ختم کرنا چاہیے یا اسکا دائرہ ٔکار اعلی عدلیہ تک محدود کردینا چاہیے ۔ آج پولیس اورڈپٹی کمشنرز کو مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوں تو ملک میں حکومت کی رٹ بہت حد تک بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔ بصورت دیگر ہم ایک نیم انارکی کی حالت میں تو پہنچ چکے ہیں ‘ یہ انتشار مزید بڑھتا جائے گا۔