مکرمی!یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب پاکستان کے کسی بھی شہراوربالخصوص کراچی سے آنے والا ہرشخص لاہورکی صفائی ستھرائی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا تھاآہ کبھی روشنیوں کا شہرکہلانے والا کراچی"کچراکنڈی" کا نمونہ بن گیا- لاہور کا شمار اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔گلی محلوں جا بجا بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ ایک کراہت آمیزاورتکلیف دہ منظر پیشش کرررہا ہے۔ کوڑا کرکٹ سے بد بو اور تعفن پھیلنے لگا ہے اور شہریوں کو آمد و رفت میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو متعلقہ حکام کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ 25 دسمبر سے پہلے شہر کو صاف کر دیا جائے گا۔ صفائی آپریشن میں تعطل کے باعث ہر طرف کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔ بند نہر میں بھی کچرا پھینکا جا رہا ہے اور اسے آلودہ کیا جا رہا ہے۔۔ یہ حالتِ زار اس لئے ہے کہ لاہور میں کچرا اْٹھانے کی ذمہ دار ترک کمپنیوں کا معاہدہ 31 دسمبر 2020ء کو ختم ہو چکا ہے، لیکن یہ معاملہ روایتی تساہل کا شکار رہا اور غالباً انہی کمپنیوں یا نئی کمپنیوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کیا جا سکا، جس کی سزا شہریوں کو مل رہی ہے-عوام کا یہ حق ہے کہ وہ اگر ٹیکس دیتے ہیں تو اس کا کچھ فائدہ انہیں بھی ہونا چاہئے۔ اگر ترکی کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کی میعاد ختم ہو رہی تھی تو اس خاتمے سے پہلے کوئی نیا معاہدہ کر لیا جانا چاہئے تھا۔ یاد رکھیے کہ کوڑا جو بظاہر فالتو ہے، ہمارے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ ترک کمپنیاں آٹھ سال یہاں سے کوڑا اٹھاتی رہیں۔اس کوڑے کا کیا استعمال کیا گیا؟ کیا اس سے کوئی پیسہ کمایا گیا؟ ارباب اختیارسے گزارش ہے ہے کہ لاہور میں صفائی ستھرائی پر توجہ دی جائے تاکہ سالڈ ویسٹ کے حوالے سے یہاں بھی کراچی جیسے حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ (جمشید عالم صدیقی، لاہور)