دس دس، بارہ بارہ سال کے دبلے پتلے سانولے یتیم بچوں کوسٹیج پر دیکھنا خوشی کی بات تھی۔ یتیم بچے، کسی دور دراز گاؤں یا قصبے سے آئے ہوئے ،صاف ستھری سکول یونیفارم پہنے ،کچھ متجسس ،کچھ حیران اور پر اعتماد ہونے کے باوجود تھوڑا سا گھبرائے ہوئے بچے۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں آنا،ایک بھرے پرے یخ بستہ ہال میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے سٹیج پر موجودگی،تصویریں کھنچوانا اور تحائف وصول کرنا۔ یقینا ان کا تجسس، حیرانی اور گھبراہٹ آمیز اعتماد برحق تھا۔ ان کے سینوں پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے حروف چمکتے تھے اور ان کی آنکھوں اور پیشانیوں میں ایک لُو رہ رہ کر دمک اٹھتی تھی۔ ہم غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے سالانہ افطار اور عشائیے میں برادرم عامر محمود کی دعوت پر جمع ہوئے تھے۔افطار پارٹیوں میں جانا ایک باقاعدہ کام ہے۔ سچ یہ ہے کہ باقاعدہ محنت، بلکہ مشقت۔سچی بات ہے کہ افطار اور سحری تو اپنے در و دیوار کی چھاؤں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔اسی لیے میں عام طور پر افطار پارٹیوں میں جانے سے معذرت کرلیتا ہوں۔لیکن برادرم عامر محمود کا حکم نہیں ٹالا جاسکتا تھا۔اس سے پہلے اسی رمضان میں ایک حکم عدولی کا مرتکب ہوچکا تھا، لہذا اب غیر حاضری کی گنجائش ختم ہوچکی تھی۔ بات صرف عامر محمود اور ان کے ساتھیوں کے اخلاق، محبت،اور قدر افزائی کی نہیںاس مقصد کی ہے جس کی طرف وہ بلاتے ہیں۔آؤ فلاح کی طرف، آؤ نیکی کی طرف۔حی علی الفلاح،حی علی الفلاح۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے 1995ء سے اب تک دیہی مضافاتی اور قصباتی علاقوں میں تعلیمی نظام قائم کرکے جس انتھک محنت کا ثبوت دیا ہے اس کی دعوت کیسے رد کی جاسکتی ہے؟سو دو سو نہیں ،سات سو سکولوں کا نظام چلانا۔ایک ارب روپے کے لگ بھگ سالانہ بجٹ کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا۔یتیم بچوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ انہیں بے یار و مددگار ہونے سے بچا لینا۔اقلیتوں کے لیے علیحدہ تعلیمی بندوبست کرنا۔کیا یہ آسان کام ہیں؟کیا یہ چھوٹے کام ہیں؟ یہ تو حکومتوں اور حکومتی اداروں کے لیے آئینہ ہے کہ دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور سہرا اللہ کا اپنا ایک نظام ہے۔کچھ معاشروں میں مخلوق کی فلاح کے لیے سربراہان اور حکومتیں بھیج دیتا ہے۔کسی معاشرے میں حکم ران بے حس اور ادارے غنودہ ہوں تو فرد یا افراد کے چھوٹے چھوٹے گروہ پیدا کردیتا ہے جن کے دل دھڑکتے ہیں اور خون گردش کرتا ہے۔اپنے لیے نہیں اپنے گردو پیش کے لیے، اپنے لوگوں کے لیے۔ان لوگوں کے لیے جن کے بدن خاک آلود ہیں اور وقت انہیں مزید روند کر گزرنا چاہتا ہے۔کچھ لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑلیتے ہیں۔اور پھر یہ سب مل کر ان خاک نشین لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں۔کتاب ِ سبز نے کہا۔ قل کل یعمل علٰی شاکلتہ ۔ کہہ دیجیے ،ہر کوئی اپنے طریقے سے عمل کرتا ہے ۔کچھ اپنی جان سے، کچھ اپنے مال سے ،کچھ دوسروں تک بات پہنچانے کے ذریعے،کوئی خاموشی سے ،کوئی گفتگو کرکے۔لیکن سب یک آواز ہوجاتے ہیں ایک مقصد کے لیے جو بہت بڑا مقصد ہے۔ اس دن صاحب کمال ، صاحبِ دل کالم نگار برادرم ہارون الرشید نے خوبصورت گفتگو کی ۔بتایا کہ امام غزالی طوسی کوکسی اور شہر کے ایک بڑے ادارے کی سربراہی کی پیشکش کی گئی ۔وہ بڑا ادارہ جس کی باگ ڈور سنبھالنا ہر صاحب ِ علم کا خواب تھا۔ امام نے انکار کردیا اور اور کہا کہ پھر طوس کے بچوں کا کیا ہوگا؟ اگلی نسل کی یہ فکر ہمیں پچھلی نسلوںنے وراثت میں دی تھی لیکن ناخلف اولاد وراثت ہمیشہ ضائع کردیا کرتی ہے۔ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی کچھ عرصہ پہلے یہ بات جان کر آنکھیں نم ہوگئی تھیں کہ ایک بچہ اپنے اپاہج فقیرباپ کی ہتھ رہڑی کھینچتا ہوا چوک لے جاتا اور وہاں بیٹھ کر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ایسے ہی کسی فلاحی تعلیمی تنظیم کے کسی ذمے دار کی اس پر نگاہ پڑی۔فقیر سے بات کی کہ یہ بچہ ہمارے سکول کے لیے دے دو۔اس نے کہا کہ یہی میری رہڑی کھینچ کر لاتا ہے اور یہی میری روزی کا سہارا ہے ۔اس کی روزانہ آمدنی کا حساب کیا گیا۔سوا دو سو روپے روزانہ۔یہ پیسے اس کے گھر پہنچائے جانے لگے۔بچہ بیٹھک سکول میں داخل ہوگیا۔سودا مہنگا نہیں تھا۔ ایک گردن کو ہمیشہ کے لیے جہالت کی غلامی سے چھڑا لیا گیا۔ ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں اور مدرسوں کے نظام سے باہر ہیں۔ہر قسم کی تعلیم کے دروازے ان پر بند ہیں ۔عوامل بہت سے ہیں۔گھریلو عدم توجہ ،جہالت ،غربت،عدم سہولت و علٰی ھذا القیاس۔ لیکن حتمی نتیجہ ایک ہے اور وہ یہ کہ ڈھائی کروڑ بچہ ان پڑھ رہ کر جوان ہوگا اور اسی طرح بے تعلیم زندگی گزار کر چلا جائے گا۔ 23 برس پہلے1995ء میں جہالت اور ناخواندگی کے خلاف جہاد کے لیے غیر کاروباری ،غیر سرکاری ادارے کے طور پرجب غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے کام کا آغاز کیا تو یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔23سالوں میں پنجاب، سندھ ،خیبر پختون خواہ،اور بلوچستان کے پینتیس اضلاع میں سات سو سکول وہ سات سو ستارے ہیں جو اس بیش قیمت ادارے کی پوشاک پر جگمگا رہے ہیں۔ملک بھر کے700 سکولوں میں 95ہزار طلبا و طالبات ہیں جنہیں 4000 اساتذہ معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ان طالب علموں میں 45 ہزار ایسے ہیں جن کا کلی یا جزوی خرچ یہ ادارہ برداشت کرتا ہے۔ ادارے کا مطلب وہ اصحاب ِخیر ہیں جو اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔کوئی ایک کمرہ بنوانے کی ذمے داری لے لیتا ہے ۔کوئی ایک یتیم طالب علم کا خرچ اپنے ذمے لے لیتا ہے اور کوئی انتظامی خرچ اٹھا لیتا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ یہ کام کسی اور کا نہیں ان کا اپنا ہے ۔یہ بچے کسی اور کے نہیں ان کے اپنے ہیںاور یہ آواز بھی کسی اور کی نہیں، انہی کی آوازہے ۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق شہروں میں شرح خواندگی 74 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 49 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر ملک میں شرح خواندگی 58 فیصد ہے جو یقینا بہت بہتری کا تقاضا کرتی ہے۔ملک کے سالانہ بجٹ کا محض دو فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جبکہ اس کے لیے فوری طور پر کم سے کم پانچ فیصد تو ہونا ہی چاہیے۔اگر 2025ء تک شرح خواندگی 90 فیصد تک لے جانی ہے تو یہ اس رفتار کے ساتھ ممکن نہیں۔ایسے میں یہ خلا غزالی ایجوکیشن اور بیٹھک جیسے اداروں نے تمام تر نہیں تو کسی حد تک پر کرنے کی کوشش کی ہے۔اور یہ بہت اہم بات ہے کہ ان فلاحی تنِظیموں کا رخ پسماندہ بستیوں اور مٹی میں رلتے گھرانوں کی طرف ہے۔ اس ماحول میں جہاں پیسہ تعلیم کے کاروبار پر اس لیے لگایاجاتا ہے کہ مزید پیسہ بنایا جاسکے یہ کتنی غنیمت بات ہے ۔ہر گلی محلے میں چار پانچ پرائیویٹ سکولز اب ہمارے شہروں میں معمول کی بات ہے ۔اکثر و بیشتر صرف پیسہ کمانے کے لیے میدان میں آئے ہوئے ہیں۔ان کو نہ علم سے غرض ہے نہ طالب علموں کی تربیت سے۔ ان کی غرض محض اتنی ہے کہ کس کی جیب میں کتنا پیسہ ہے۔جو مالی طور پر جتنا طاقت ور ہوگا اتنا ہی ان کے لیے فائدہ مند اور اتنا ہی ان کی توجہ کا مرکزہے۔ مضافات اور دیہات سے انہیں کیا واسطہ جہاں سے مالدار طالب علم ملنے کے امکانات کم ہیں۔ عمارت اپنے ستونوں اور شہتیروں پر قائم ہوتی ہے۔جتنے مضبوط ستون اتنی ہی مضبوط عمارت۔ہم اور ہمارے لوگوں میں لاکھ برائیاں سہی جو ہر وقت سن سن کر کان پک جاتے ہیں لیکن ان کیڑے نکالنے والوں نے کیا کبھی نہیں دیکھا کہ کہ صحت تعلیم معاش روزگار اور روزمرہ سہولیات پسے ہوئے طبقات تک پہنچانے کے لیے ہمارے دائیں بائیں لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر،ایک آواز ہوکر۔وہ آواز جو ایک سرمدی گونج کی طرح افلاک میں پھیلتی ہے ۔ حی علی الفلاح۔حی علی الفلاح۔