کراچی (اسپورٹس ڈیسک) حیدرآباد میں گرائونڈز کی حالت پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ یہاں گرائونڈ ہیں کتنے اور کتنے بنا کسی فیس کے کھلاڑیوں کیلئے دستیاب ہیں، ان میں سے کتنے سرکاری فنڈز ہونے کے باوجود فیس لے کر دستاب ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت کھیلنے والوں کیلئے حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اب اگر ہم کہیں کہ حیدرآباد اور اس سے متصل جڑواں شہروں میں کھیل زوال پذیری کا شکار ہیں تو اس کی ترقی کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے ؟ جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ حیدرآباد میں کھیلوں کے زوال کے دیگر اسباب سے قطع نظر گرائونڈز کی کمی یا پھر عدم دستیابی بھی ایک وجہ ہے ۔ حیدرآباد کے معروف نوجوان اسپورٹس آرگنائزر فیملی کے سپوت ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن حیدرآباد کے سابق صدر میر سلیمان تالپور کے مطابق حیدرآباد میں میر کرکٹ گرائونڈ کے سوا کوئی اور گرائونڈ فری میں دستیاب نہیں ہے اور پبلک کیلئے کوئی قابل ذکر گرائونڈ اول تو ہے ہی نہیں اور اگر تعمیر بھی کئے گئے ہیں تو یا تو وہ سہولتوں سے محروم ہیں یا پھر عوام الناس کی پہنچ سے دور ہیں اور یہی زوال کی اصل وجہ ہے کیونکہ جب تک آپ سہولتوں فراہم نہیں کریں گے اور اسے عام پبلک کیلئے اوپن نہیں کریں گے تب تک کھیلوں کے زوال سے نکلنا ناممکن ہے ۔ اس حوالے سے روزنامہ 92 نیوز کراچی سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری پاکستان بیس بال فیڈریشن (ویمن) عائشہ ارم نے کہا کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کھلاڑی تیار کئے جائیں یا گرائونڈ؟ جب کھیلنے والے ہی نہیں ہوں گے تو عمارتیں اور گراسی فیلڈ کس کام کی؟ بلاشبہ اچھے گرائونڈز کی موجودگی علاقے کے ریوینیو پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں اور دوسرے شہروں سے آنے والی ٹیمیں دوران ایونٹس لوکل آمدنی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں لیکن جب تک متعلقہ کھیل اس علاقے میں مقبول نہیں ہوگا اور اس کے کھلاڑی یا شائقین دلچسپی نہیں لیں گے تو وہ کھنڈرات میں ہی تبدیل ہوں گے اور وہاں صرف گرائونڈ انچارجز، اکا دکا معاونین ہی نظر آئیں گے اور کھیل مذید زوال کی طرف جائیں گے ۔ ایک وقت تھا جب کوٹری میں خواتین کیلئے گرائونڈز کی عدم دستیابی کے باوجود انہوں نے معروف اسپورٹس آرگنائزر پرویز احمد شیخ اور پروفیسر ام کلثوم عباسی کی مدد سے ویمن کرکٹ، سافٹ بال، بیس بال سمیت دیگر کھیلوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔