چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہی لمحے مرے کام کے تھے یہ محبت کا کرشمہ ہے کہ ہم خاک ہوئے آسماں بن کے بھی رہتے تو ترے بام کے تھے وقت کو تو جیسے پنکھ لگے ہوئے ہیں، اڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ دیکھتے نہیں کہ حکومت کو پونے تین سال ہونے جا رہے ہیں۔ زندگی بھی بہت تیز ہے۔ ’’ہے تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی۔ کتنے ہی حادثات سرِشام ہو گئے‘‘ بس آنکھ جھپکتی ہے اور منظر بدلا ہوا نظر آتا ہے۔ ابھی کالم لکھ کر بھیجا تھا کہ، بھارت سے چینی اور دھاگہ برآمد کرنے کی اجازت۔’’مگر قلم کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے بدلنے کا محاورہ صادر آ گیا۔ غالب بے چارہ ایسے ہی نہیں رویا تھا کہ: مگر یہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسے پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا اب سب کچھ حماد اظہر پر ڈال دیا گیا ہے کہ انہوں نے عجلت میں کسی سے مشورہ کیے بغیر یہ اقدام کر لیا۔’’روئوں میں اپنے دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ قبلہ حماد اظہر کی کیا حیثیت کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ کر سکیں۔ سنا ہے خان صاحب نے حماد اظہر سے پوچھا کہ یہ کیا کیا؟ میں حماد اظہر کی جگہ ہوتا تو منیر نیازی کا شعر پڑھ دیتا ’’پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو۔ حسن والوں کی سادگی نہ گئی‘‘ یقینا خان صاحب مسکرائے بھی نہیں ہونگے، ہاں کبھی وہ شرما جایا کرتے تھے۔ اسی ادا نے تو انہیں یونانی دیوتائوں جیسی کشش دی تھی۔ مگر جب سے انہوں نے یوٹرن کو حکمت و دانائی جانا، وہ پکڑے جانے پر اپنا اعتماد نہیں کھوتے بلکہ سینہ اور زیادہ باہر نکال لیتے ہیں۔ پتہ نہیں پھر غالب سامنے آ گئے: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا کیا تماشہ ہے’’اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے‘‘۔ ہوا یہ کہ قریب کے لوگوں نے آسماں سر پر اٹھا لیا کہ خان صاحب ہمیں کم از کم باہر نکلنے کے قابل تو رہنے دیں۔ پہلے ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کا سودا کیا گیا۔ عمران خان جناب خود بھی تو کہہ چکے کہ جب تک کشمیر کے حوالے سے مودی پرانی صورت حال بحال نہیں کرتے نہ مذاکرات ہونگے اور نہ تجارت۔ یہ چھٹی حس قسم کی چیز ہوتی ہے جو اندر کی خبر محسوس کر لیتی ہے۔ ہمارے لیے اتنی خوشی ہی کافی ہے کہ کچھ وزرا نے ہاتھ جوڑ کر یہ فیصلہ کروا لیا کہ ’’کشمیر کی قیمت پر بھارت سے تجارت نہیں ہو سکتی‘‘ اب یہ وفاقی کابینہ کا دوٹوک فیصلہ ہے۔ پتہ نہیں ہمارے حکمران کسی احساس کمتری کا شکار ہیں یا بھارت کو خوش کرنا انہیں ایجنڈے میں دیا جاتا ہے یا پھر کوئی اور خفیہ معاہدہ ہے۔ زرداری کے دور میں بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کوشش ہوتی رہی۔ ان کے تو ادیب شاعر بھی بھاگے تو سیدھے بھارت۔ آپ کو یاد تو ہو گا کہ کس نے کہا تھا کہ بھارت کے ٹینک پر بیٹھ کر واپس پاکستان آئیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کے فنکاروں کے آگے پیچھے بچھ بچھ جانے والوں نے کبھی بھی ان سے عزت نہیں پائی۔ اقبالؔ کا لازوال شعر ہے: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من نواز شریف کے حوالے سے تو مجھے کچھ لکھنا ہی نہیں چاہیے کہ ان کی بھارت کے لیے محبت تو چھلک چھلک جاتی تھی کہ اپنے محل کا نام بھی بھارت کے گائوں سے مستعار لیا یہی نہیں مودی کی حلف برداری پر گئے اور انہیں گھر بلایا۔ چلیے یہاں تک بھی ٹھیک تھا۔ جندل سے کاروبار اور پھر اس سے آگے۔ ابھی میں اعجاز الحق کی بات سن رہا تھا کہ میاں صاحب نے ان کو ایک قادیانی کو حج کا کوٹہ دینے پر اصرار کیا۔آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ مجھے ایک سابقہ سیکرٹری خارجہ نے ایک واقعہ سنا کر حیران کر دیا کہ بھٹو صاحب نے سعودیہ کو ایک قادیانی کو سفارت دینے کے لیے آخری حد تک کوشش کی اور سفارتی تعلقات توڑ دینے کی بھی دھمکی دی۔ بات لمبی ہو جائے گی۔ ختم نبوت والے بل پر شب خون مارنے کی کوشش تو نواز شریف نے کی۔میں کبھی کبھی خادم رضوی کا سوچتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں۔ ہائے ہائے کیا زندگی کر گئے۔ ہم جیسے ان کی خاک کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ معاف کیجئے گا، میں ذرا جذباتی ہو گیا اور موضوع سے ہٹ گیا یا پھر درست موضوع کی طرف چلا گیا۔آخر ہم ابدی حقیقت سے کب تک آنکھ بند رکھیں گے۔ یاور حیات ایک دن بہت راز دارانہ انداز میں کہنے لگے’شاہ صاحب! یہ لوگ مسلمان ہونے پرجھجکتے کیوں ہیں، کیسی کمتری ہے۔ ہمارے پاس تو اس کے علاوہ نہ کوئی پہچان ہے اور نہ کوئی شناخت‘‘ میں ٹی وی کے اس لیجنڈ کی بات پر حیران رہ گیا۔ بات ان کی درست تھی کہ ’’اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘‘ اب تو ہر طرف جھوٹ کا کاروبار ہے۔ ذہن میں رہے کہ کاروبار میں جھوٹ الگ بات ہے اور جھوٹ کا کاروبار دوسری بات۔ سچ کوئی بولتا نہیں کوئی سنتا نہیں، سن لیے تو یقین نہیں کرتا، یقین کر لے تو اسے احمق سمجھا جاتا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ کہا جاتا ہے عظیم لوگ نظریات کی بات کرتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں اور تیسرے درجے پر پست ذہنیت والے کرداروں پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ آپ ایک نظر اخبار پر ڈالیے، کردار کشی کی ’’روشن‘‘ مثالیں آپ دیکھیں گے۔ کسی بات کا مدلل اور اچھا جواب دینے کی بجائے تمسخر اڑیا جاتا ہے ۔ ذہن اتنا بھی کام نہیں کرتا کہ اس انداز سخن سے نفرت اور تعصب جھلکتا ہے،سننے والے پہلے ہی ایک منفی رائے قائم کر لیتا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ بری بات کرنے والا تین جگہ نقصان پہنچاتا ہے۔ ایک وہ جسے وہ بتا رہا ہوتا ہے، دوسرا جو موجود نہیں اور تیسرا بات کرنیوالا خود‘‘ ہمیں کچھ نہ کچھ تو سیکھنا چاہیے، ۔ خدا کے لیے بس کریں۔ کوئی میچور بات کریں۔ براڈشیٹ کی رپورٹ بھی آ گئی ہے۔ اب کون کس سے پوچھے گا۔ اب حماد اظہر کا ایک اور بیان آ گیا ہے کہ ’’سی پیک منصوبے بروقت مکمل ہونے چاہئیں‘‘ پتہ نہیں اس بیان کے لیے مشورہ کیا یا نہیں، معلوم نہیں۔ چلیے چھوڑئیے گزارہ کی جئیے ۔ ارشاد شاہین کے دو اشعار: جان لیوا سماج سے توبہ اس کے رسم و رواج سے توبہ اک کڑا امتحان ہے کیجیے خواہشِ تخت و تاج سے توبہ