عالم اسلام کے معروف سکالر شیخ عبداللہ بن سلیمان نے مکہ مکرمہ میں خطبہ حج کے دوران مسلم امہ کو درپیش مسائل اور ان کے حل کی خاطر تدابیر سے آگاہ کیا ہے۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے میدان عرفان کی مسجد نمرہ میں روح پرور خطاب کے دوران کہا کہ دنیا پر مشکلات اللہ کا امتحان ہیں۔ مشکلات اللہ کے حکم سے ہی آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے کوئی ایسا مرض پیدا نہیں کیا جس کا علاج نہ ہو۔ کورونا کی آزمائش کے دوران اللہ کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے قرآن پاک کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ معمولی مصیبت بڑے عذاب سے خبردار کرتی ہے۔ وبا میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کریں۔ مسلمان خرافات سے دور رہیں۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے کہ ’’اگر اہل ایمان کے دو گروہوں میں لڑائی یا اختلافات ہو جائیں تو آپ اس میں ثالث بن کر ختم کردیں۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان کا کہنا تھا کہ آج بہت بڑی تعداد میں مسلمان اللہ کی تعلیمات سے غافل نظر آتے ہیں۔ دین میں کسی نئی چیز کی گنجائش نہیں۔ حقوق اللہ کا ذکر کرنے کے بعد خطبہ حج میں والدین کے احترام پر زور دیا گیا۔ آخر میں انہوں نے کورونا کی وبا کے دوران حج انتظامات کے متعلق سعودی حکومت کی کوششوں کو سراہا۔ خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے رکھی۔ قدیم عرب اپنے اپنے طریقے سے اس مقدس عمارت کا طواف کیا کرتے۔ حضرت محمد مصطفی ؐ کے اعلان نبوت سے پہلے بھی مختلف علاقوں سے لوگ خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کے لیے حاضر ہوا کرتے۔ خانہ کعبہ کی اس حیثیت نے کئی گمراہ حکمرانوں کو حسد کی آگ میں جلا دیا۔ ابرہہ بھی ایسا ہی ایک حاسد تھا جو آخر کار اللہ تعالیٰ کی بھیجی ابابیلوں کے ہاتھوں کھائے ہوئے بھس میں بدل گیا۔ نبی کریم ؐ نے حج کو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل کیا ہے اور خانہ کعبہ کی حیثیت قیامت تک متعین ہو گئی۔ پانچ ارکان کلمہ‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور حج ٹھہرے۔ پہلے تینوں ارکان تمام مسلمانوں کے لیے بلامتیاز ہیں جبکہ حج اور زکوٰۃ صاحب استعطاعت افراد پر فرض ہیں۔ اسلام کا بنیادی تصور فرد کو معاشرے سے جوڑنا اور اسے معاشرے کے لیے فائدہ مند بنانا ہے۔ عبادات میں خدا کی خوشنودی کو بندے کی خوشی کے ساتھ منسلک کرنے کا مقصد ایک ایسا روحانی اقدار سے آراستہ سماج تخلیق کرنا ہے جہاں دوستی اور دشمنی‘ متقی اور غیر متقی کا معیار صرف خوف خدا اور حقوق العباد کے احترام پر مشتمل ہو۔ وقت کے ساتھ ساتھ حج کی سہولیات اور انتظامات میں وسعت آتی گئی ہے۔ محدود سے رقبے پر محیط مطاف اب بیک وقت لاکھوں افراد کو طواف کی گنجائش دیتا ہے۔ حاجیوں کو پیدل یا جانوروں کی سواری کی جگہ تیز رفتار بسیں اور ٹرین میسر ہیں۔ عمارات اور ٹرانسپورٹ ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ جن حکمرانوں نے خانہ کعبہ کی توسیع اور جج سہولیات کی فراہمی کے لیے کام کیا ان کے لیے خدا کے ہاں یقینا اجرموجود ہے۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے خطبہ حج میں کورونا کی وبا کو ایک آزمائش قرار دیا۔ آزمائش وہ وقتی زحمت ہوتی ہے جس کا حل اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں دیا ہوتا ہے جبکہ عذاب کا کنٹرول خالصتاً اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ کورونا کی وبا نے دنیا کے ہر ملک کو متاثر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سعودی عرب سمیت خطے کے عرب ممالک کو خصوصی دولت سے نواز رکھا ہے۔ انسان کی زندگی بچانا اور اسے امراض سے محفوظ رکھنا بھی عبادت ہے۔ دولت مند مسلم ممالک نے اپنی دولت کو اب تک خیر اور بھلائی کے اجتماعی مراکز کی تعمیر پر خرچ کرنے میں فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ میڈیکل سائنس‘ جدید لیبارٹریز اور ٹیکنالوجی سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن دنیا کے 57 مسلم ممالک کے شہری آج بھی سنگین مرض کے علاج کے لیے یورپ اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ کورونا کی وبا کو ہی دیکھا جائے تو سعودی عرب سمیت کوئی مسلم ملک اس سے بچ نہیں پایا لیکن کسی کے ہاں ویکسین کی تیاری کا منصوبہ روبہ عمل نہیں۔ یقینا اللہ کے وعدے کے عین مطابق کورونا سے نجات کے لیے دوا موجود ہے بس انسان نے اسے دریافت کرنا ہے۔ عہد حاضر میں ٹیکنالوجی نے انسان کو بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں۔ آواز‘ روشنی اورتصویر پلک جھپکتے ہزاروں کلومیٹر دور پہنچ جاتی ہے۔ اس سہولت نے نئی قسم کی خرافات بھی پیدا کردی ہیں۔ ٹیکنالوجی سہولت کے ساتھ ساتھ اب برائی کے فروغ کا وسیلہ بن رہی ہے۔ یہ صورت حال امت مسلمہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ٹیکنالوجی سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے ترقی کا عمل رک جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے احتیاط نہ برتی جائے تو سماج کا اخلاق بگڑنے لگتا ہے۔ شیخ عبداللہ بن سلیمان نے امت مسلمہ کو خرافات سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے ہر فرد کو ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرنے کا کہا ہے۔ بلاشبہ باہمی نااتفاقی نے امہ کو معاشی‘ سیاسی اور دفاعی مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے خطبہ حج میں فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی اور کسی گورے کو کالے پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں۔ آج مسلمان ریاستیں اس فرمان کی کھلی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ یہی نہیں خود پاکستان میں مسلکی‘ لسانی اور نسلی گروہ بندی نے ملک کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یقینا مسلمانوں کی بڑی تعداد احکامات الٰہی پر عمل کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ خطبہ حج دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں تک ایک مشترکہ پیغام اور مشترکہ چیلنجز کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس خطبے کو ایک روایتی بیان کی بجائے امت مسلمہ کا مرکزی بیانیہ تسلیم کر کے مسلمان معاشروں میں اصلاح احوال کا انتظام کیا جائے۔