آپ، ممکن ہے کہ بہت دلیر ہوں۔ زندگی، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بسر کرتے آئے ہوں۔ اْڑتے ہوئے تیر کے مقابل ہو جانا، آپ کا شیوہ رہا ہو۔ خطروں سے کھیلنا، آپ کی فطرت ِثانیہ بن چکی ہو۔ لیکن معاملہ، اب آپ کی صرف "بہادری" کا نہیں ہے! اب امتحان ہے آپ کی ایمان داری کا، آپ کی رحم دلی کا، شرافت کا اور آپ کی انسانیت کا! ان سب کا تقاضا ہے کہ اپنے ساتھ، اپنے اہل ِخانہ کی بھی خیریت کا سوچیے۔ اپنے ہمسایوں، اپنے محلے داروں، اپنے دیہات، گائوں، شہروں اور مْلک و قوم کی، آپ اگر خیر چاہتے ہیں تو انفرادی اور جتماعی فاصلے کو برقرار رکھیے! پہلے ہم اسے افواہ قرار دیتے رہے۔ پھر یوں ہوا کہ کسی جاننے والے کے ذریعے خبر کان پڑی تو اسے مغالطے یا مبالغے پر مبنی سمجھا۔ اب یہ وائرس، ہر شہر، ہر محلے میں داخل ہوا چاہتا ہے۔ ایسے میں باہر، بغیر حفاظتی تدابیر کے نکلنا، سراسر تخریب کاری ہے! رہنمائی مذہب سے چاہتے ہیں تو اس میں خْود کْشی کو بھی حرام ہی موت قرار دیا گیا ہے! یہ وائرس بزرگوں اور ضعیفوں کا خصوصاً دشمن ہے۔ وائرس کی لپیٹ میں جب یہ لوگ آتے ہیں تو ان کا اٹھنا محال ہوتا ہے!۔ ٭٭٭٭٭ اپنا خنجر، اپنی گردن! آدمی دنیا میں کیوں بھیجا گیا؟ امریکن محاورے میں، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے اور اس کا جواب، دنیا سے ہرگز نہیں مل سکتا! جو سوال، دنیا سے ورے ہوں گے، ان کا جواب بھی ماورا میں پائیے گا! غالب نے جو یہ کہا کہ آپ اپنا تماشائی ہو گیا ہوں، تو نثر میں "شاعری" کی تھی۔ نظیری بھی اس سے ملتی جلتی بات، بہت پہلے کہہ گیا ہے۔ خواہی، کہ عیب ہای ِتو، روشن شود ترا یکدم منافقانہ نشین، در کمین ِخویش! اکبر الٰہ آبادی کی شاعری کی طرح، ان کی نثر پر بھی توجہ نہیں کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں "خوب ہوتی، تو دنیا کیوں ہوتی؟"۔ مصرع نما اس ایک فقرے میں، معنی کا جہان بند ہے! شک نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا گزرگاہ ہے، منزل نہیں۔ انسان کا اصل امتحان ہی یہ ہے کہ دکھائی دینے والی چیز کو اعتباری اور نظر نہ آنے والی کو یقینی تسلیم کرے! مْبارک ہیں وہ جو ع بازار سے گْزرے (تو)ہیں، خریدار نہیں ہیں! پیالے سے وہی کچھ چھلکتا ہے، جو اس میں پہلے سے موجود ہو۔ جو مسائل دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان کا حل بھی، البتہ یہیں مل جاتا ہے۔ انسان کی پیدا کردہ ایک بیماری، نسلی تعصب ہے۔ یہ بے مغزی اور کم نظری کے ساتھ ساتھ، بے انصافی کی بھی علامت ہے۔ امریکا میں نسلی امتیاز کے تازہ واقعے نے، ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام شخص کو، ایک سفید فام پولیس افسر نے، زمین پرگرا کر، اس کی گردن اپنے گھٹنے تلے دے دی۔ جارج کی سانس رْکنے لگی اور وہ احتجاج کرنے لگا کہ میرا دم گھْٹ رہا ہے۔ پولیس افسر نے اس صدا پر کان نہیں دھرا۔ وہاں موجود عام شہریوں نے بھی جارج کی آواز میں آواز ملا کر، احتجاج کیا کہ اس کی حالت خستہ ہوتی جا رہی ہے لیکن صدائے برنخواست! کچھ دیر بعد، ادھ موئے جارج کو، گاڑی میں لادا گیا اور چند ہی منٹ میں وہ دَم دے گیا۔ اس واقعے نے، مْلک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ پورا واقعہ، اگر کیمرے نے محفوظ نہ کر لیا ہوتا، تو جارج فلائیڈ کا نام، ایک عادی مجرم کی ہلاکت سے زیادہ، کچھ نہ ہوتا۔ مْلک بھر میں احتجاج ہو رہا ہے۔ کئی شہروں میں فسادات جاری ہیں۔ احتجاج میں، بہت سے گورے بھی کالوں کے ساتھ آ ملے ہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری، ان کی زندگی میں ہی، نقادوں کی اچھل کود کا میدان اور "بازیچہ ء اطفال" بن گئی تھی۔ علامہ کا یہ شعر، دنیا کی ہر قوم اور آنے والے تقریبا ہر زمانے کے لیے ہے! تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے، آپ ہی خْود کْشی کریگی جو شاخ ِنازک پہ آشیانہ، بنے گا ناپائیدار ہو گا صدارتی انتخابات چند ماہ بعد ہونے والے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک، ان میں ٹرمپ کے جیتنے کا امکان گھٹتا جا رہا ہے۔ اس خاکسار کی رائے میں، بائیڈن کے جیتنے کا امکان اَور بھی کم ہے! عوام کی شکست، بہرصورت یقینی ہے! ٭٭٭٭٭ والد ِمرحوم کی یاد ! ابتلا کے ان دنوں میں، روز و شب کا حساب باقی نہیں رہا۔ میرے والد کا انتقال، بائیس سال پہلے ہوا تھا۔ یوم ِپیدائش ان کا، 2 جون ہے۔ یہ دن آیا اور گزر گیا، لیکن دھیان اس طرف نہیں گیا۔ اگلے روز، جون کی تیسری تاریخ پر نظر پڑی تو ان کی سالگرہ یاد آ گئی۔ لیکن ع اک مہک سی، دم ِتحریر، کہاں سے آئی؟ وہ اتنے خوش مزاج اور جیتے جاگتے آدمی تھے کہ باغ و بہار طبیعت کی ترکیب، گویا ان کے لیے وضع کی گئی تھی۔ اس سے مذاق، اْس سے چْہلیں۔ شاذ ہی کوئی شگفتہ فقرہ، انہیں میں نے دہراتے ہوئے سْنا۔ جتنا میں تنہائی پسند ہوں، اتنے ہی وہ محفل کے آدمی تھے۔ اسلام آباد سے جب وہ لاہور جایا کرتے، تو یاروں کے ساتھ محفل جمتی۔ اظہر صاحب کے جگری دوست تبسم گیلانی صاحب(اللہ انہیں سلامت رکھے)، بتایا کرتے ہیں کہ سب احباب اظہر سہیل کے گرد دائرے کی شکل میں بیٹھا کرتے اور ع پھر دیکھتے انداز ِگْل افشانی ِگفتار چند روز پہلے، مظہر برلاس صاحب نے لکھا تھا کہ صحافت میں اتنی خوب صورت زبان، کسی اَور نے نہیں لکھی۔ سن ستتر سے لے کر، ستانوے تک کی صحیح سیاسی تاریخ، ان کی تحریروں کے بغیر، مرتب ہی نہیں کی جا سکتی۔ یہ خوبیاں اپنی جگہ۔ مگر ان سب سے بڑھ کر، وہ میرے والد تھے۔ عام انسان ہوتے، تب بھی اس رشتے میں، کوئی فرق نہ آتا۔ انسان کا حافظہ، خْدا کی بہترین نعمتوں میں سے ہے۔ پر یہ نعمت، کبھی کبھی، بڑی تکلیف دہ بھی بن جاتی ہے! احمد مشتاق، ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کا یہ شعر، والد مرحوم سے ہی سنا تھا۔ مٹ گیا مشتاق دل سے رنگ ِ یاد ِرفتگاں پھْول مہنگے ہو گئے، قبریں پْرانی ہو گئیں خْدا یہ وقت ہم پر نہ لائے!