سوچتا ہوں ہم کتنے بدقسمت لوگ ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ایسا ادارہ نہیں، جس پر اعتماد کیا جا سکے۔کوئی ایسا شخص نہیں، جس کی بات اندھیرے میں کرن کی طرح چمکے۔جس سے ہاتھ ملایا جائے تو جسم میں سرور کی لہر دوڑ جائے پھر سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ زمین اتنی بانجھ ہو گئی، جب ہم اپنے بچوں کی طرف دیکھتے ہیں اور یقینی طور پر وہ جب ہمیں اپنا ماڈل تسلیم کرتے ہیں تو جسم میں دکھ کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے، وقت کے اس تنہا اداس اور ویران سفر میں ہمارے لئے کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو ہماری ہمت بندھا سکے۔جو ہمیں تھپکی دے سکے جو ہمیں اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکے جو ہماری رہبری کر سکے آج ہمارے سامنے چھینا چھپٹی‘ من مانی‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس انا تکبر ہٹ دھرمی اور ذاتی مفادات کے عنوان کی جو فلم چل رہی ہے، آڈیو اور ویڈیو کے ذریعے تاک جھانک اشتعمال دلانے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو گالیوں کے بعد ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک پہنچ گئے ہیں، عید کی تعطیلات گزرنے کے بعد جب سپریم کورٹ کے روم نمبر ون میں چیف جسٹس اپنے دو ساتھی معزز ججوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے تو غالب امکان یہی تھا کہ کوئی بڑا کھڑاک ہونے والا ہے اور ہمارے بہت سے سیاسی پنڈت بانگ دہل کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف بھی تنویر الیاس جیسے انجام سے دوچار ہو جائیں گے، دوسری طرف فوج کے سابق سربراہ جنرل باجوہ بدستور خبروں کی شہ سرخیوں میں ہیں۔وہ اپنی بات کہہ بھی رہے ہیں اور پھر اپنی بات سے مکر جانے کا فن کوئی ان سے سیکھے۔ان سے بات کر کے ہر ایک کو یوں لگتا ہے کہ وطن سے محبت کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے ہیں اور موجودہ حالات پر ان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔عمران خاں ہیں کہ ہر روز ٹی وی اسکرین پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کبھی اپنی بات نگلتے اور کبھی اپنی پچھلی کہی ہوئی باتوں پر معذرت خواہانہ لب و لہجہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔کبھی امریکیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں کبھی آصف علی زرداری کو اپنے قتل کا سارا الزام محسن نقوی کے سر منڈ دیتے ہیں کبھی لندن پلان کا تذکرہ کرتے ہیں اور کبھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔حکومت ہے جس کی کوئی سمت نہیں اور صاحب اقتدار یہ بتانے کو تیار نہیں کہ عام پاکستانی کیا کرے جس کے لئے دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ حکومت بڑی ہوشیاری سے عام پاکستانیوں کو چھٹکیاں بھرتی ہے مہنگائی کا بوجھ ڈالتی ہے جھوٹے سچے وعدے کرتی ہے ایسے وعدے کرتی ہے، جس کا حقیقت سے دور دور کا واسطہ نہیں ہوتا، خواب دکھا دکھا کر عوام کو ادھ موا کر دیا ہے،اس کی معاشی پالیسی کی کوئی سمت نہیں کوئی ایسا قابل عمل میکنزم نہیں جو قوت خرید اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے بوجھ میں کوئی توازن پیدا کر سکے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، بچوں کو نہروں میں پھینک رہے ہیں ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور حکومت ہے کہ سب کچھ اچھا ہے کا راگ الاپ رہی ہے۔میں نے کہیں بہت پہلے منٹو کا ایک افسانہ پڑھا تھا اتنا پہلے کہ اس کا عنوان اس کی کہانی اس کے سارے کردار تک بھول گیا ہوں بس دو چیزیں یاد رہ سکی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہانی تقسیم ہند کے فسادات پر لکھی گئی تھی اور دوسریہ کہ اس میں دو ایسی لائنیں تھیں جو بذاتی خود ایک مکمل کہانی ہیں، اس میں فرقوں کی تقسیم لسانی تقسیم سیاسی تقسیم کا ذکر تھا اور یہ کہ جب یہ کہ ایک قوم کے لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ ہوں ہر قسم کی تقسیم کا عمل جس طرح سے گزشتہ چند سالوں میں ہوا اسے دیکھ کر مجھے خوف آنے لگا ہے یہ وطن اس لئے بنا تھا کہ یہاں پر وطن کے لوگ امیدیں بوئیں گے اور امیدیں کاٹیں گے لیکن ہوا کیا؟میں تو لوگوں کی مایوسی دیکھ رہا ہوں یہ مایوسی میرے تلوے میں چبھے کانٹے کی طرح ہر قدم پر ٹیس بن کر اٹھتی ہے اور چیخ بھی کر نکلتی ہے ظلم دیکھیں کہ جن لوگوں کے پاس کچھ وسائل تھے گزشتہ 5سال میں 10لاکھ افراد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں یہ ہمارے ہی ہم وطن ہیں ان میں ہنر مند لوگ بھی تھے محنتی اور پڑھے لوگے اس حقیقت کو تو ہمارا کوئی سیاست دان نہیں جھٹلا سکتا کہ ملک سے محبت کرنے والے با صلاحیت لوگوں کے بغیر کوئی ملک خود انحصاری کے راستہ پر نہیں چل سکتا عمران خاں نے دعویٰ کیا تھا لوگ باہر سے آ کر پاکستان میں نوکریں گے اتنے راستے اتنے مواقع اور اتنی خوشحالی ہو گی کہ غربت اور پسماندگی رفو چکر ہو جائے گی انہوں نے چار سال تک اقتدار اور اختیار کا مزا چکھ لیا لیکن مجال ہے کہ امید کی کوئی کرن چمکی ہو۔ موجودہ حکومت نے تو پوری قوم کے کس بل نکال دیے ہیں محض ایک سال میں مہنگائی کے امڈتے طوفان نے عام پاکستانیوں کی ’’بس‘‘ کر دی ہے اس کے باوجود حکمرانوں کی کرسی پر کوئی لرزہ طاری نیں ہو رہا کیونکہ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا انہیں پکڑ نہیں سکتا کوئی انہیں سزا نہیں دے سکتا کوئی یہ بتانے کے لے تیار نیں کہ ہم اس بحران سے کیسے نکلیں گے؟ ہمارے سیاستدان ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔یہ الجھن‘اضطراب اور فکر مندی صرف اس لئے ہے کہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں کیونکر اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے یہ تمام سیاستدان بڑی بے تکلفی سے ہر وقت اسلام کا راگ الاپتے ہیں عمران خان ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہیں اور ان کے مخالفین ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں۔اقتدار کی دوڑ میں یہ مذہب کا تڑکا ضرور لگاتے ہیں میں کہتا ہوں کہ جناب اعلیٰ آپ اپنے آپ سے سوال کیجیے ایک لمحے کے لئے منرل واٹر‘ سلائسوں خوشبوبوں جرمن کتوں اور امریکی فارمولوں سے باہر نکل کو سوچیے کیا واقعی یہ وہی اسلام ہے جس کی بنیاد آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی اور جسے بعدازاں سیدنا فاروق اعظمؓ نے پوری دنیا میں پھیلایا تھا۔پوچھیے اپنے آپ سے سوال کیجیے کیا آپ کا نظام طبقاتی تفریق مٹاتا ہے گورے اور کالے کی تمیز ختم کرتا ہے عربی اور عجمی کی دیوار گراتا ہے امیر اور غریب کے لئے ایک ہی پیمانے پر انصاف کرتا ہے۔انسان کو انسان سمجھتا ہے مظلوم کی آہ سے ڈرتا ہے اور خدا کے قہر سے کانپتا ہے اگر نہیں تو پھر آپ لوگ کون سے اسلام کی باتیں کرتے ہیں آپ کا اسلام آپ کا نظام اور سب سے بڑھ کر آپ کا عمل کیا وجہ ہے کہ آپ کے اس نظام کے دامن میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں کوئی اصلاح کوئی تبدیلی نہیں۔ میں آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے گارے کی دیوار کو سبز رنگ دے کر کنکریٹ بنانے کی کوشش نہ کریں کہ مٹی کی دیوار خواہ کتنی مضبوط نظر آتی ہو ۔ہوتی آخر مٹی کی ہی ہے جسے چند بوندیں بھر بھرا کر دیتی ہیں جسے چند چھینٹے فنا کر دیتے ہیں۔