عالمتاب تشنہ ایک بڑے طرح دار شاعر ہوئے ہیں۔ان کے ایک شعر نے ایک زمانے میں بڑی شہرت پائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر پرندے درختوں سے اچانک اڑ جائیں تو یہ آفات ناگہانی کے آنے کی نشانی ہوا کرتا ہے۔مجھے لگتا ہے ہم نے ایسی نشانیوں کو نظرانداز کرنا چھوڑ رکھا تھا کہ ملکہ کوہسار پر آسمانوں سے برف ایک آفت ناگہانی بن کر ٹوٹی۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ آپ اپنی کارکردگی کو گنانے کے لئے یہ جتانیں لگیں کہ مری میں ایک لاکھ کاریں پہنچ چکی ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ ملک میں غربت نام کی کوئی شے نہیں۔خوش حالی ہی خوشحالی ہے۔اس طرح کی باتیں بہت ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں۔آغاز تو اس دن ہو گیا تھا کہ جب ہم نے بنی گالا سے وزیر وزیر اعظم ہائوس تک کے ہیلی کاپٹر کے سفر کا خرچہ 55روپے فی کلو میٹر بتایا تھا یا یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اگر درد کی گولی4روپے کی بجائے 7روپے ہو گئی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے اور ایسی منطق تخلیق کرنا مرے اللہ کو پسند نہیں آتا جو اس کے بندوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو۔ایسی بہت سی باتیں آج کل ہر سطح پر ہو رہی ہیں۔کسی ایک فرد کی بات نہیں۔ہمارا اجتماعی کلچر بن گیا ہے۔اس میںکسی خاص جماعت کا تخصص ہی نہیں۔جس کا بس چلتا ہے وہ بساط کے مطابق اس میں حصہ ڈالتا ہے۔مگر وہ لوگ جن کے کندھوں پر قدرت نے حکمرانی کا بوجھ ڈال رکھا ہے‘ان کی غلطیاں گناہ بن جاتی ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ برفانی عذاب ہم پر اس وجہ سے نازل ہوا‘بتانا صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں شقی القلب قسم کے مسخرے پن (calous clown)سے باز رہنا چاہیے۔اس وقت جب حزب اختلاف کے بعض بیانات سے بھی مجھے خوف آیا کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے۔اگرچہ یہ سوفیصد درست ہے کہ موجودہ حادثہ ہمارے حکمرانوں یا انتظامیہ کی نااہلی یا بے حسی کا نتیجہ ہے۔اس میں یہ بتانا بھی درست ہو گا کہ ماضی کی حکومتوں نے اس سلسلے میں کیا کیا بندوبست کر رکھے تھے۔مگر مجھے ڈر لگتا ہے کہ ہم انسانوں کے مرنے پر اس طرح نہ تڑپیں جس طرح اس کا حق ہے۔اپنے دلوں کی تڑپ میں کچھ اور بھی شامل کر لیں چاہے یہ سیاست ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے یاد آیا کہ جب کشمیر کا زلزلہ آیا تو میںٹی وی پروگرام کیا کرتا تھا۔ایک پروگرام میں ایک دین دار شخص نے یہ کہہ دیا کہ یہ سب ہمارے گناہوں کی سزا ہے جس پر یہ عذاب الٰہی نازل ہوا۔مرے منہ سے جھٹ نکلا کہ گناہ میں اور آپ کریں اور سزا ان معصوم لوگوں کو مل جائے یہ کہاں کا انصاف ہے۔اس پر ایک بحث چھڑ گئی‘اس دن نہیں بعد کے دنوں میں کہ عذاب الٰہی کب کب اور کن کن حالات میں آتا ہے اور یہ کہ ہر بات کو عذاب سے موسوم کرنا درست نہیں ہے۔خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ عذاب سے پہلے اتمام حجت کرنا ہے۔بستیوں کی بستیان عذاب الٰہی سے تباہ ہو گئیں مگر خدا نے پہلے اس قوم کو عذاب سے خبردار کر دیا تھا۔ایسے دلائل بھی آئے کہ بات بہت دور تک جا پہنچی۔میں یہاں رک جانا چاہتا ہوں۔دنیا کے دکھوں سے گھبرائے ہوئے لوگ چند لمحوں کی مسرت کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان وادیوں میں نکلے تھے کہ اس طوفان نے آ لیا۔ ہو سکتا ہے ہم اس سے سبق سیکھ جائیں مگر مجھے جو بات تکلیف دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سبق سیکھنے کے بجائے الزام تراشی میں لگ جاتے ہیں۔ یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے صرف نظر کرنے لگ جاتے ہیں۔مجھے یہاں مشتاق احمد گورمانی کی ایک تقریر یاد آ رہی ہے جب وہ اپنی دیرینہ سیاست سے ایک طرح سے تائب ہو کر خدمت دین میں لگ گئے تھے۔ایک تقریر میں انہوں نے بتایا کہ جب ماضی میں بستیوں کی بستیاں تباہ کر دی جاتی تھیں تو کیا ان میں ایک بھی نیک اور صالح شخص نہیں ہوتا تھا‘کیا ساری کی ساری بستی عذاب کی مستحق ٹھہرتی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے کہا کہ ان بستیوں میں اچھے لوگ ہوتے تھے مگر ان میں ایک خرابی پیدا ہو جاتی تھی کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والی خرابیوں کو نظر انداز کرتے تھے۔اس کے لئے انہوں نے اپنی اردو تقریر میں انگریزی کا لفظ acquiesceکرنا استعمال کیا تھا۔اس سے یہ بات مرے ذہن میں بیٹھ گئی ہے کہ اگر آپ کتنے بھی نیکو کار اور پارسا نہ ہوں مگر اپنے گرد برائیوں پر اگر آپ صرف نظر کرتے ہیں ان سے آنکھیں موڑ لیتے ہیں‘انہیں نظر انداز کرتے ہیں تو یہ ایک ایسی خطا ہے جس کی سزا آپ ہی کو نہیں‘پورے معاشرے کو ملتی ہے۔ یہ جو میں باتیں کر رہا ہوں‘یہ ٹھیک ٹھیک اس حادثے پر منطبق نہیں ہوتیں جو مری کی پہاڑیوں پر ہو گیا ہے مگر جانے کیوں مجھے یہ سب باتیں یاد آ رہی ہیں۔یہ معصوم لوگ بیچارے چند لمحے کے لئے مسرت کی تلاش میں نکلے تھے مگر ان کے مقدر میں ایسا حادثہ ہو گیا جس کا غم ان کے پیارے ہر سوں بھگتتے رہیں گے۔ہمیں اپنے گرد پھیلی علامات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘اگر پرندے بھی پیڑوں سے ہجرت کر رہے ہوں تو سوچنا چاہیے کہ کوئی طوفان تو نہیں آنے والا۔وہ ہمارے ہاں ایک محاورہ بھی ہے کہ طوفان سے پہلے ایک خاموشی ہوا کرتی ہےlull before storm ہمیں خاموشی سے بھی ڈرنا چاہیے۔ اپنے گرد پھیلی علامات پر نظر رکھنا چاہیے۔خلق خدا اگر پریشان ہے تو ہمیں خوف آنا چاہیے نہ کہ ہم اسے اپنے بے رحمانہ پن کا حصہ بنا لیں۔خدا کی پناہ مانگتا ہوں اپنی ہر خطا سے جو مجھ سے دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئی ہو۔مجھے اس سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق دے‘مذاق اڑانے کی نہیں۔