مقبوضہ کشمیر کے تئیں ارون دتی رائے کے ذاتی مشاہدات بتاتے ہیں کہ بڑے پیمانے پرفوج کشی کے باوجود کشمیرمیں کیسے کرفیوکی بندشوں،قدغنوں اور بندوقوں اورتیغوں کے سائے میں کشمیریوں کامورال بلندیوں کو چھو رہا ہے۔یہ ا سلامیان کشمیرکے اسی بلندمورال کی کرشمہ سازی ہے کہ بھارت سے کامل آزادی اورپاکستان سے الحاق یعنی ’’کشمیربنے گاپاکستان‘‘ کشمیرکے مردوزن کا بیانیہ بن چکا ہے۔(MSD)یعنی مودی ،امیت شاہ ،اجیت ڈول ڈاکٹرائن کے تحت بھارتی آرمی چیف جتنی مرضی مقبوضہ کشمیر میں فوج جھونک دے لیکن اب ان کے لئے کشمیر رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ ہرموسم خزاں میں مقبوضہ کشمیرکے طول وعرض میں سلگتے چناروں کی تپش ’’آتش چنار‘‘بزبان حال یہ پیغام سنارہی ہے کہ کشمیریوں کے سینوں میں موجود آزادی کی حرارت اورتپش غلامی کی آہنی زنجیروں کو پگھلاکررکھ دے گی۔ دانائے رازاقبال ؒنے کیاخوب فرمایا۔ جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند خاک ارجمندکشمیر میں ہرطرف نظرآنے والے فلک بوس چنار کے درخت پورے موسم بہاراورموسم گرما میں فرحت بخش اورنشاط آفریں ہوتے ہیں اورچناروںکے سایوں میں بیٹھاہرمتنفس نشاط انگیزی محسوس کررہاہے۔ وادی کشمیر کی فضا ئوں کوچارچاندلگادینے والے یہ چناروادی کشمیر کو حقیقت معنوں میں جنت نظیر ثابت کرتے ہیں۔انہی کی بدولت شہنشاہ جہانگیرنے کہاتھاکہ ’’اگرفردوس بروئے زمین است ہمیں است ہمیں است ‘‘ لیکن ’’پت جڑکاالارم‘‘بجاتے ہوئے جونہی خزاں کاموسم شروع ہوجاتاہے توخاک ارجمندکشمیرمیں پیوستہ وآراستہ چناراپنے سرسبزوشاداب پتوں کا رنگ بدل دیتے ہیں گویا’’اپنے تیور‘‘بدلتے ہیں اورانکے پتے گہرے سرخ ’’لال پیلے‘‘ہوجاتے ہیں اور بلاشبہ وہ جموںوکشمیرمیں پھیلی گہری اداسی اور آزار کی عکاسی کرتے ہیں۔ایسالگ رہاہوتاہے کہ جیسے یہ چنار کشمیر میں موجود قابض بھارتی فوج کی قہرسامانیوں کی حدت اورشدت کے باعث اندر ہی اندر سلگ رہے ہیں۔صاف دکھائی دے رہاہے کہ کشمیر کے یہ چنار دراصل ایک طرف ملت اسلامیہ کشمیرپرڈھائے جانے والے بھارتی مصائب پرگواہی دیتے ہیں وہیںکشمیری مسلمانوں کے وجودمیں پائے جانے والی آتش آزادی کالیول بتادیتے ہیں۔ جب کشمیرمیں بھارتی مظالم انتہاپرہوں،جب کشمیریوں کی آنکھوں میں آنسو خشک اورخون رواں ہو ان کے سینے چھلنی اوردل مجروح ہوں۔جب ان کی زندگیاںغلامانہ قفس میں محصورہوں اوراپنے عرب مسلمان حکمران مودی کوعین اس موقع پرہارپہنارہے ہوں توکشمیری مسلمانوں کے تلاطم اورتموج کی کیفیت کیاہوگی ۔اس کااندازہ لگاناچنداں مشکل نہیں۔ آج پورے 29 دن ہورہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کرفیو اورلاک ڈائون کی زنجیروں میں جکڑاہواہے۔اس طویل لاک ڈائون سے خوراک اور ادویات کی شدید قلت پائی جارہی ہے ۔مواصلات کی بندش،انٹر نیٹ، موبائل ، لینڈ لائن سروس اور ٹی وی نشریات کی معطلی کے باعث مقبوضہ وادی کا پانچ اگست سے تادم تحریربیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے ۔ مقامی اخبارات کی اشاعت معطل جبکہ تعلیمی اورکاروباری ادارے بدستور بند ہیں۔یہ اکیسویں صدی کابڑا المیہ ہے کہ میں خطہ کشمیرمیں موجود90لاکھ پرمشتمل انسانی بستی کااس قدرمحاصرہ اورپوری دنیاجس پرخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ لیکن سلام ہواہل کشمیرکی عزم وہمت پر کہ جوقابض فورسز کی جانب سے سختیوں بندشوں،پابندیوں میں جکڑے ہوئے شیلنگ اورپیلٹ گنوں سے چھلنی ہونے کے باوجود بھارتی جبرکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کربرسراحتجاج ہیں ۔10ہزار سے زائد کشمیری نوجوان گرفتار کیے جاچکے ہیں جن میں سے ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کیا گیاہے ۔پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے دو برس تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن جس خاک کے ضمیرمیں ہو آتشِ چنار ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ِ ارجمندکاپیغام پڑھنے سے قابض اورسفاک بھارت آنکھیں چرارہاہے ۔کشمیرکی خاک ارجمندمیں پیوستہ آتش چنار کی کرشمہ سازی ہے اہل کشمیر پر ہندوڈوگرہ کی بربریت کے باوجوداس کی راج نیتی ،اسکی بالادستی کوقبول نہیںاور1931ء میںڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ریاست جموںوکشمیرکے سارے مسلمان اسی طرح اٹھ کھڑے ہوئے تھے جس طرح آج کشمیرکابچہ بچہ بھارتی رام راج کے خلاف کھڑے ہیںاورڈوگرہ کواپنی اوقات یاددلادی ۔ خاک ارجمندکشمیرکے ضمیرمیں موجودآتش چنار سلگتارہااورہندوڈوگرہ کوچلتاکردیااور کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرایا گیاجسے آج ’’آزادکشمیر‘‘کے نام سے جاناجاتاہے۔ لیکن منصوبہ بندی کادرست اورصحیح تعین نہ ہونے کے باعث سری نگر تک لشکرکے پہنچنے کے باوجودوادی کشمیر،لداخ اورجموں آزادنہ ہوسکااوراس پربھارت جبری طور پرقابض ہوا ،اوراس کے جابرانہ قبضے اورسفاکانہ تسلط کو72برس بیت گئے ۔لیکن اس طویل مدت کے دوران بھی خاک کشمیرکے ضمیرمیں آتش چنارکی موجودگی کے باعث یہ خاک ارجمندسردنہ ہوسکی ۔ اور1990 ء میںکشمیرکی تیسری پیڑی بھارتی ناجائزاورجبری قبضے کے خلاف صف آراء ہوئی ۔بھارتی رام راج نے جموں وکشمیرکی مسلمان آبادی کو لہو لہان کردیا ، بدنام زمانہ بھارتی ایجنسیوں اور قاتل فوج کے مظالم، بستیوں کاجلائو گھیرائو،کرفیواورکریک ڈائون ، سرچ آپریشنزکے نام پرانسانی مذبح خانے سجانے اورکھیل کے ہرمیدان کوشہیدوں کے قبرستانوں میں بدلنے ،ایک لاکھ کشمیریوں کے قتل ، 15ہزار کشمیری نوجوانوں کی گمشدگی،بے شماربے نام قبروں کی دریافتگی نے کشمیری عوام کو سمجھا دیا کہ اب وطن اوراپنی سرزمین کوہندورام راج سے آزادکرانے کے لئے کفن بردوش ہونے کے سوااورکوئی چارہ کارنہیں بچا۔1990ء سے 1999ء تک پھر2008ء سے2011تک اس کے بعد 2016ء سے آج 2019ء تک کشمیری مسلمانوں کاعزم بالجزم چانکیہ سیاست کوسمندربردکرچکا ہے ۔ خاک ارجمندپرآج ہرکشمیری مسلمان ہندورام راج کے دجل وفریب سے نکل چکاہے۔کشمیرکانوجوان علویات کوچھورہاہے وہ سفلی خواہشات یعنی بھارت کی مراعاتی پیکیجزاورتحریص کومتروک اوراپنے سے مہجورکرچکاہے ۔ یہ صاف اوربے غل و غش بات ہے کہ5اگست کے بعدبالخصوص کشمیرکی خاک ارجمندپر بھارت کی تمام مکارچالیں اور فریب کاریاںفاسدہوچکی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ دنیاکوابھی تک اس کاادراک نہیں ہوپارہالیکن اس کاکیاکریں کہ جس کی عقل اوندھی گئی ہووہ ابھی بھی کہہ رہاہے کہ کشمیربھارت کااندرونی معاملہ ہے ۔