پاکستان 21 کروڑ عوام کے ساتھ جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک اور ایٹمی قوت بھی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق اس کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور میزائل کی استعداد بھارت سے زیادہ ہی ہے۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں افغانستان، بھا رت، ایران اور چین ہمارے ہمسایہ ۔ اس حوالے سے پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود ہم خطے میں اور بین الاقوامی طور پر خود کو یکہ وتنہا کیوں محسوس کرتے ہیں۔ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری ’سی پیک‘ کے حوالے سے اور تاریخی طور پر بھی چین ہمارا قابل اعتماد ترین دوست ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ یہ دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ ترکی کا شمار بھی ہمارے دوستوں میںہوتا ہے۔ سعودی عرب سے ہمارا گہرا قلبی رشتہ ہونے کے علاوہ سٹرٹیجک اور اقتصادی تعلق ہے۔ حال ہی میں سعودی عرب نے ہماری روبہ زوال معیشت کو ادھار تیل اور سٹیٹ بینک میں 3 ارب ڈالر رکھوا کر ہماری مدد کی ہے ۔ایران ہمارا برادر، اسلامی دوست اور ہمسایہ ہے لیکن امریکہ اور سعودی عرب سے قریبی تعلقات کی بنا پر تہران اسلام آباد کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہمارے حکمران بھی مغربی کیمپ میں خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں۔ ان حقیقتوں کے باوجود ہم خارجہ محاذ پر مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر ہم امریکہ کے حلیف رہے ہیں۔ امریکہ نے اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے ہماری بہت مدد کی ہے۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پہلے امریکہ کہتا تھا کہ پاکستان ہمارا Frenemyیعنی دوست بھی دشمن بھی، لیکن جب سے ٹرمپ انتظامیہ برسراقتدار آئی ہے تعلقات زوال کی طرف جا رہے ہیں۔ سیماب پا امریکی صدر برملا کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو اس لیے اربوں ڈالر نہیں دیتے کہ وہ ان لوگوںکی مدد کرے جو افغانستان میں امریکیوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی اقتصادی اور فوجی امداد بند کر رکھی ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ تاریخی طور پر پاکستانی اور امریکی افواج کے درمیان تال میل اور ہونے والی مشقیں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ سفارتی لحاظ سے اسلام آباد کے بارے میں انتہائی درشتہ زبان استعمال کی جاتی ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان، میں دہشت گردی کرنے والوں کی پیٹھ ٹھونکنا اور مدد کرنا چھوڑ دے، انھوں نے یہ تڑکا بھی لگایا کہ جو بات میں میڈیا کے سامنے کر رہا ہوں اتنی ہی صاف گوئی سے یہ بات پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں کرتا آرہاہوں۔ امریکہ افغانستان کے گرداب میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ وہاں وہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑ رہا ہے جس میں سینکڑوں امریکی فوجی مارے جا چکے اور کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ افغان طالبان کی مسلسل کامیابیوں کا بھی ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ حال ہی میں قندھار کے گورنر پر حملے میں ایک امریکی جرنیل بھی زخمی ہوا، پاکستان کی دوٹوک تردید کے باوجود اس حملے کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ یہ بھی کہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت اور امریکہ سے مذاکرات کروا کر ایسی وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل میں مدد دے جس سے افغانستان میں استحکام بھی ہواورامریکہ کی جان بھی چھوٹ جائے، اس حکومت میں طالبان بھی شریک اقتدار ہوں۔ دوسری طرف واشنگٹن کا یہ متضاد مطالبہ بھی ہے کہ پاکستان طالبان کی خوب ٹھکائی کر ے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اگر پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے توان کی پٹائی کر کے انھیں کیسے بات چیت پر آمادہ کرسکتا ہے بالخصوص اس پس منظر میں کہ افغان طالبان افغانستان کے وسیع حصے پر قابض ہیں یا ان کا گہرا اثر ورسوخ ہے۔ گویا کہ طالبان زمینی طور پر اتنی مضبوط پوزیشن میں ہیں کہ امر یکی اور افغان ان کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ ان کے پاس دینے کواس کے علاوہ کیا ہے کہ افغان طالبان بھی سالہا سال کی جنگ لڑنے کے بعد اکتا چکے ہیں اور امن کے خواہشمند ہیں لیکن ایسا امن امریکی شرائط پر ہونا محال نظر آتا ہے۔ جس دور میں جنرل اشفاق کیانی آرمی چیف اور شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کی حکومت میںوزیر خارجہ تھے۔ یہ دونوں شخصیات ڈائیلاگ کے لیے واشنگٹن تشریف لے گئیں، جہاں جنرل کیانی نے سائیڈ لائن پر افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کئی صفحات پر مشتمل ڈوزئیر اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کے حوالے کی جسے بعد ازاں انہوں نے سینئر اخبار نویسوں کو جی ایچ کیو بلا کر شیئر کیا۔ اس ڈوزیئر میں جنرل کیانی نے لکھا تھا کہ طالبان کہتے ہیں کہ امریکہ جتنے سال بھی جنگ لڑتا رہے ہمیں فرق نہیں پڑتا کیونکہ امریکہ کے پاس گھڑیاں ہیں اور ہمارے پاس وقت ہے ۔ You have the watches we have time۔ اس بات کو اب چھ برس گزر چکے ہیںاور نیٹو فورسز کو افغانستان میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس ساری صورتحال کا ملبہ مسلسل پاکستان پر گر رہا ہے۔ نہ جانے ہمارا بیانیہ کہ ہم توخود دہشت گردی کا شکار ہیں، ہم دوسر ے ملکوں میں دہشت گردی کیسے کروا سکتے ہیں، دنیا میں کوئی ماننے کو تیار کیوں نہیں۔ حتیٰ کہ ہمارے دوست چین اور ترکی بھی، جنہوں نے دہشتگردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے ادارے FATFمیں ہمارے خلاف ووٹ دیا۔ اس ضمن میں ہم گرے لسٹ پر ہیں اور اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو بالآخر بلیک لسٹ ہو سکتے ہیں، یہ ہماری خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کی ناکامی ہے۔ بہت عرصے بعد سیاسی اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ اس وقت یقینا ان پالیسیوں کی جہت بدلنے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی خطے میں بڑی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ بھارت اورامریکہ ایک دوسرے کے سٹرٹیجک حلیف بن چکے ہیں جبکہ پاکستان اور چین عرصہ سے اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بہت قریب ہیں۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ٹرمپ انتظامیہ بر ملا طور پر کہتی ہے کہ اگر پاکستان کی آئی ایم ایف کے تحت مدد کی گئی تو یہ رقم سی پیک کے تحت چینی قرضے اتارنے کے لیے استعمال ہو گی حالانکہ پاکستان کئی مرتبہ واضح کر چکا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یقینا پاکستان دفاعی لحا ظ سے اور سٹرٹیجک طور پرتو مضبوط ہے لیکن اصل مسئلہ اقتصادیات کا ہے۔ خوش قسمتی سے فوجی قیادت کو صورتحال کا مکمل ادراک ہے۔ جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات اور خطے میں سٹرکوں کے ذریعے راہداریاں نہیں قائم ہونگی۔ پاکستان موجودہ اقتصادی گرداب میں پھنسا رہے گا۔ افغانستان میں امریکی سفیر جان بس نے شوشہ چھوڑا تھا کہ پاکستان افغانستان کو راہداری کی سہولتیں دینے کو تیار ہے اور اسلام آباد کی طرف سے اس دعوے کی تردید نہیں کی گئی لیکن بدقسمتی سے مودی سرکار الیکشن جیتنے کے جنون میں پاکستان کارڈ خوب استعمال کر رہی ہے۔ دوسری طرف کشمیر میں جوں جوں جذبہ حریت کی آگ پھیلتی جا رہی ہے بھارتی زعما بڑی عیاری کے ساتھ اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کو مزید احتیاط کرنی چاہیے کہ اس کی سرزمین کو کوئی بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ جیسا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ بھارت میں اگلے برس عام انتخابات کے بعد ہی ان معاملات پر بامقصد بات ہو سکتی ہے ،ظاہر ہے ایسے مذاکرات برابری کی بنیاد پر ہی ہونے چاہئیں۔