والدہ مرحومہ مغفورہ کی رسم ِ چہلم گزشتہ روز آبائی قریئے،محلہ پیر بخاری نارنگ شریف میں ادا ہوئی، یوں اْن کے سانحہء ارتحال کو تقریباً چالیس روز گزرگئے، لیکن اِن شب و روز میں کوئی ایک ساعت اور لمحہ بھی ایسا نہ ہوگا، جو اْن کی یاد اور تصوّر سے خالی ہو۔ غالباً اشفاق صاحب نے کہا تھا اور درست ہی کہا کہ ماں کسی بھی عمر میں آپ سے جدا ہو، اْس کی جدائی اور فراق، آپ کی زندگی کا نقشہ ہی بدل دیتا ہے۔ شام و سحر بے کیف اور حیات کے رنگ پھیکے پڑتے دیکھائی دیتے ہیں۔ماں --- پہلی اور آخری بہترین دوست، مونس و غموار اور ہمراز و ہم نوا--- ماں کو کھونے کا نقصان کبھی بھی پورا نہیں ہوتا، لیکن وقت کے ساتھ اس نقصان اور خسارے کے ساتھ، انسان جینا سیکھ جاتا ہے۔ ماں کبھی ہم سے دور نہیں ہوتی، ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہے، ہماری سوچوں میں، ہمارے کاموں میں، ہماری دْعاؤں میں، ہماری یادوں میں، ہماری باتوں میں --- ہمارے اچھے اور بْرے لمحے میں،ہمارے دل کے قریب بلکہ قریب ترَ۔ علامہ اقبال ؔکی والدہ امام بی بی، نہایت پاکیزہ اور متقی خاتون، نومبر 1914ء میں اْن کا وصال ہوا، تو اقبال ؔتحصیل ِ علم کے لیے بیرونِ ملک تھے86 اشعار پہ مشتمل طویل اور دلدوز مرثیہ لکھا، جو حسبِ حال بھی ہے اور بر محل بھی، چند اشعار: کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟ کوں میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟ خاکِ مرقدپر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا اب دْعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا؟ والدِ گرامی کا سانحہ ارتحال اپریل 2013ء میں ہوا، بڑے وجیہہ، پْرنْور اور شاندار شخصیت کے مالک، ذاتی اور خاندانی اوصاف و کمالات کے امین، علم و فضل اور بہترین ایڈ منسٹریشن و مینجمنٹ جیسی صفا ت سے متصف۔ خانقاہ،مسجد اور مدرسہ جیسے '' انسٹیٹیوشنز'' پر کامل اعتبار اور اعتماد کے حامل اور انہی اداروں کو معاشرے کی اصلا ح اور فلاح کا مرکز و محور کردانتے ہوئے،عمر بھر اِ ن اداروں کی آبیار ی میں سرگرم رہے۔ ازحد عملیت پسند، مسجد میں باقاعدہ خطبہ بھی دیتے، نقشبندی خانقاہ کے شیخِ طریقت تھے، اپنے والدِ گرامی کے سلسلہء فیض کو متعلقین اور متوسلین تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے،ہمہ وقت دستر خوان آراستہ اورلنگر کا سلسلہ جاری رہتا۔ اپریل 2013ء میں وہ دنیا سے پردہ فرماگئے، تو والدہ ماجدہ نے ان کے بعد تمام امور کے ساتھ ساتھ، سارے خاندان کو منظم و منسلک رکھا، خاندان میں بلند مرتبہ پر فائز تھیں اور اپنے بیٹوں، بیٹیوں،پوتوں،پوتیوں،نواسوں،نواسیوں سمیت اپنے بھتیجوں، بھانجوں اور ان کی اولادوں پر اپنی محبتوں کا سائبان تانے رکھا۔ ان کا بنیادی شغف امور ِ خانہ داری کی نگرانی کے علاوہ قرآنِ پاک کی تلاوت، تفہیم اور تدریس تھا۔ شب زندہ دار تھیں۔ اکثر ان کی خدمت میں آخرِشب کی دْعاؤں میں توجہات اور التفات کی درخواست کرتا تو سراپا عجز اور انکساربن جاتیں۔ کم و بیش پچاس برس انہوں نے قرآنِ پاک ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا اور ہزاروں بچیوں نے ان سے اکتسابِ فیض کیا۔ اْن کو پورا قرآن پاک ترجمے سے یاد تھا،اْن کی ذات نسل نو کی تربیت کا اہم اور مکمل ادارہ تھی۔ اوائل دورہی سے،ہمارے گھر میں دن کا آغاز والدہ مرحومہ کی تلاوت قرآن پاک کی آواز سننے سے ہوتا تھا۔ فجر کی نماز کے لیے تمام اہل خانہ کو بیدار کرنا اْن کا معمول تھا، اگر کہیں سستی یا کوئی کوتاہی نظر آتی تو پھر وہ سختی بھی فرماتیں اور نمازکے بعد قرآن پاک کی تلاوت کا ہمیں اہتمام کرنا ہوتا تھا۔ بچپن میں مسجد میں قرآن پاک پڑھنے جاتے تو وہاں پوری کلاس کے لیے موسم کے مطابق چائے، لسی یا مشرب وغیرہ کی ترسیل کا اہتمام ہماری والدہ فرماتی تھیں۔ 8 جون کو فجر کے وقت ان کے فون سے کال آئی تو گھبرا گیا، زیادہ تر،اْن سے فون پر بات ہوتی تھی، یہ برین ہیمبرج کاا بتدائی حملہ تھا، لاہور میں تقریباً تین ہفتے کے علاج کے بعد طبیعت کافی بہتر ہوگئی۔ ہسپتال سے فراغت کے بعد، میں نے انہیں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر، بالعموم میں ان کے ساتھ ایسے کرتا، ڈرائیور کی موجودگی میں وہ گفتگو سے احتراز فرماتیں۔ اْن کا دایاں ہاتھ،مَیں نے اپنے ہاتھ سے تھاما ہوا تھا،مجھے انہوں نے آنے والے دنو ں اور اپنی دنیا سے رخصتی اور پھر جنازہ، قْل دسواں کے حوالے سے ہدایات دیں۔ جس میں بالخصوص یہ کہ آنے والے مہمانوں کا خیال اور خواتین کے لیے پَردے کا اہتمام ہو۔ بظاہر اْن کی طبیعت بہترتھی اور کسی فوری حادثے کا اندیشہ بھی نہ تھا۔ یہ جمعرات کا دن تھا، اتوار کو اْن کی بیٹیاں،بیٹے سب اْن کے پاس اکٹھے ہوئے، اْن کے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔بیٹیوں کو ویسے ہی رخصت کیا جیسے وہ کیا کرتی تھیں۔ سب خوش باش روانہ ہوگئے، ایک دن بعد، برین ہیمبرج کا دوبار ہ حملہ ہوا، جو شدید تھا، تقریباً تین ہفتے آئی سی یو میں رہیں۔والدِ گرامی ؒ نے خواب میں:چھوٹی ہمشیرہ کو فرمایا کہ اپنی والدہ کو گھر لے جائیں، ا ور پھر انہوں نے ان کے بعد بیڈ روم میں،اْن کے لیے سفید بیڈ شیٹ آراستہ کروا کے،انہیں لَٹا کر،چہرہ قبلہ رْخ کروادیا۔ گویا یہ ایک واضح اشارہ تھا،مگر آئی سی یو سے فوری گھر لانا ذرا مشکل تھا،آبائی گھر میں ضروری طبی سہولیات کی فراہمی کے اہتمام پر 18 جولائی کو اْنہیں گھر لے آئے۔ یہ شام کا وقت تھا،اگلی صبح وہ اس دارِ فانی سے کوچ فرماگئیں (اِ نَّالِلَّہِ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعْون)۔ میری زندگی کی یہ ازحد مشکل اور دْکھ بھری گھڑیاں تھیں،غم کی ساعتوں اور کٹھن لمحوں میں سا تھ نبھانے والے بھی یاد رہتے ہیں اور ساتھ چھوڑنے والے بھی، وطنِ عزیز کی مقتدر علمی، دینی، روحانی شخصیات، سادات ِکرام،نمائندہ مساجد اور خانقاہوں میں والدہء مرحومہ کے ایصال ِ ثواب کی محافل و مجالس کا جس کثرت سے اہتمام ہوا، یہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اْن کی قبولیت کا ایک اشارہ ہے۔ دنیا بھر سے تعزیت وپْرسہ اور اظہار ِ قبولیت کے پیغامات موصول ہوئے، اْن کا ثمیمِ قلب سے شکر گزار ہوں۔ ہمارے خاندان اور بھائی بہنوں کا اس غم اور دْکھ اور والدہ کی جدائی کے احساس نے ایک دوسرے کے اور زیادہ قریب کردیا،ماں جی اپنے کنبے و قبیلے کو ہمیشہ یکجا اور محبت آفریں دیکھنے کے متمنی رہتیں، الحمداللہ،کل اْن کے ختمِ چہلم کے موقعہ پر ایسے ہی مناظر اور مظاہر تھے۔ ان کے پوتوں اور پوتیوں نے جس طرح اْن کی بارگاہ میں، اپنی محبتوں کے نذرانے پیش کیئے، وہ منفردبھی تھا اور محبت آمیز بھی، انہوں نے عمر بھر جو محبتیں تقسیم کیں، آج وہ اْن کی مرقد نور پہ نچھاور ہونے کے لیے بیتاب تھیں۔ بنتِ زَہرا فاطِمہؓ ہیں، سیّدہ اْمِّ رضا خونِ مولا مرتضیٰؓہیں، سیّدہ اْمِّ رضا بیٹا طاہر، خود مطہر، اور اَطہر سَر کا تاج کیا طہارت کی فضا ہیں، سیّدہ اْمِّ رضا یہ تو اْن سے پْوچھیئے کہ جن کے گھر سے چل بسیں کیا نہیں تھیں اور کیا ہیں، سیّدہ اْمِّ رضا ہے یقین مْجھ کو حزیں کہ خْلد کے گْلزار میں پْر بَہار و پْر ضیا ہیں، سیّدہ اْمِّ رضا