اقتصادی معاملات کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج بین ا لاقوامی تعلقات ہیں۔ابتداء وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب اور یو اے ای سے کرتے ہیں۔ اس دورے کے بعدسعودی عرب بہت بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ سی پیک کا حصہ بننے کے لئے راضی ہو گیا ہے۔اس مقصد کے لئے فالو اپ دورہ کے لئے اعلیٰ سطحی سعودی وفد دو ہفتوں میں پاکستان آ رہا ہے۔چین کو بھی خطے کے ممالک کا اس ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بننے پر کبھی اعتراض نہیں رہا ہے ۔خطے کے ممالک کی اگر بات کریں تو ایران، چین ، ترکی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے ہی اچھے رہے ہیں۔ افغانستان کی حد تک یہ معاملات کیونکہ براستہ امریکہ چلتے ہیں تو اس میں اتار چڑھائو بھی پاکستان امریکہ تعلقات کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔ لیکن عوامی سطح پر خصوصی اور حکومت میں عمومی طور پر افغانستان میں اس تعلق میں موجود پیچیدگی کو سمجھا جاتا ہے اس لئے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی ہو جاتی ہے لیکن دشمنی کی سطح پر کبھی بھی نہیں پہنچے۔خطے میں چین کے بعد پاکستان کے لئے دوسرا اہم ملک روس ہے جس کے ساتھ ہمارا واخان ویلی سے زمینی فاصلہ چند کلو میٹر کا تھا لیکن یہ فاصلہ بوجوہ ختم نہ ہو سکا بلکہ بڑھتا چلا گیا۔ پہلے برطانوی دور میں روس اورمتحدہ انڈیا کے تعلقات بہت خراب رہے پھر پاکستان کی آزادی کے بعد ہم امریکہ بہادر کے دوست بن گئے جس سے یہ دوری اور بڑھی اور اس میں سب سے خطرناک دور وہ تھا جب U2 امریکہ کانگرانی کرنے والا طیارہ روس نے مار گرایا جو کہ مبینہ طور پر پاکستان کے فضائی اڈے سے اڑا تھا۔سرد جنگ کے دور میں ہمارے تعلقات بہت کشیدہ رہے کیونکہ ہم مغربی اور امریکی بلاک کا حصہ تھے اور یہ مزیدخراب روس کے افغانستان میں آ جانے سے ہوئے۔ امریکہ کی افغانستان کے اندر پراکسی وار کا حصہ بن کر ہم نے روس کے ساتھ خاصی دشمنی کمائی اور پھر روس ٹوٹ گیا۔کمزور ہونے کے بعد روس نے بھی اپنی بین ا لاقوامی دوستیوں پر نظر ثانی کی اورپاکستان نے بھی روس کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔جنرل مشرف کے دور میں امریکی ڈو مور کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں امریکہ کے علاوہ دوسرے اہم عالمی پارٹنرز کی تلاش شروع کرنی پڑی۔ چین کے ساتھ تو دوستی شک و شبہ سے بالا ہے ہی، تو روس کے ساتھ بھی کیوں نہ نئی دوستی کی بنیاد رکھی جائے۔ اس کا سہرا جنرل مشرف کے سر ہے جنہوں نے2003ء میں ملائیشیا میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں موجودہ روسی صدر اور اس وقت وزیر اعظم ولادیمیر پیوٹن کو خصوصی دعوت پر مبصر کے طور پر شرکت کے لئے کہا۔ اس تجویز کو مان لیا گیا اور پیوٹن اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ وہاں پر ہونے والی مشرف ،پیوٹن ملاقات بھی بہت اہم تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آتے چلے گئے۔ 2008 ء میں پیوٹن پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے کہ جنرل مشرف کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ بہر حال اب پاکستان اور روس کے تعلقات صحیح سمت چل نکلے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔ اب خطے میں ہمارے سب سے بڑے پڑوسی بھارت کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے۔ اور ایسا ہوا بھی۔ وزیر اعظم مودی کے مبارکباد کے خط کے جواب میں عمران خان نے انہیں مزاکرات کی دعوت دی اورکل شروع ہونے والے ہفتے میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کی ملاقاتوں کی بات کی۔ بھارت نے اس خط کے جواب میں آمادگی ظاہر کی اور ملاقات کا اعلان بھی کر دیا لیکن چوبیس گھنٹوں میں ہی اس سے بھاگ گیا۔ بہانہ بھی ایسا تراشا کہ بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ ، عذر گناہ بد تر از گناہ ۔ بھارت کا یہ وطیرہ رہا ہے ۔2004ء کی آگرہ سمٹ ہو یا پھر ساٹھ کی دہائی میں دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ ، سردار سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہونے والے چھ ماہ طویل مذاکرات ہوں نتیجہ ایسا ہی کچھ نکلتا ہے کہ بھارت اچانک بھاگ نکلتا ہے اور بہانہ بھی انتہائی بودہ ہو تا ہے۔ آخر میں ذکر اس ملک کا جس کی وجہ سے ہمیں آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے میں ہمیشہ مشکلات درپیش رہیں۔ہمارے سیاسی رہنما اکثر اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ وہ خارجہ امور میں انکی نہیں چلنے دیتی۔شاید کسی حد تک اس میں حقیقت ہو لیکن سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ امریکہ بہادر کی مرضی کے بغیر ہم کسی ملک سے تعلقات نہ خراب کر سکتے ہیں نہ ہی اچھے کر سکتے ہیں۔امریکہ بہادر جب سے ہمارا دوست بنا ہے ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں رہی۔دوستی کے ابتدائی سالوں میں مدد کے عوض اس نے ہم سے اسکی بہت بھاری قیمت جانی و مالی قربانی کی صورت میں وصول کی ہے اور یہ وصولی ابھی تک جاری ہے۔جس ملک میں امریکہ گزشتہ سترہ سال سے مقیم ہے اور اپنی مرضی کی حکومتیں اور حکمران متعین کر رہا ہے اس میںخرابی کی تمام تر ذمہ داری ہمارے سر ڈال کر خود معصوم بن رہا ہے۔ جنرل مشرف نے 2006ء میں امریکہ کو تجویز دی تھی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں اور انہیں پاور شئیرنگ میں لے کر آئیں، اس وقت جنرل مشرف پر ڈبل گیم کا الزام لگایا گیا۔اب امریکہ خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بے چین ہے اورپاکستان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں امریکہ کی مدد کرے۔ جہاں تک پاک امریکہ تعلقات ہیں تو وہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں امریکہ کو بھی اب سمجھ آ رہی ہے کہ ڈو مور والی گیم اب نہیں چلنے والی اس لئے اب وہ کچھ عرصہ ہمیں لولی پاپ دینے کی کوشش کرے گا اور مناسب موقع پا کر کسی بھی بہانے سے پابندیوں کا اعلان کر سکتا ہے، ہمیں اس عرصے میںخطے میں اپنے تعلقات کو مضبوط اور مربوط کرنا ہے کیونکہ دوست بدلے جا سکتے ہیں پڑوسی نہیں۔