یہ اکیس جون 2006کی بات ہے سندھ اسمبلی کا اجلاس مروجہ طریقے سے شرو ع ہوااپوزیشن کی نشستوں پر پیپلز پارٹی اور سرکاری بنچوں پر مسلم لیگ ق کے ارکان براجمان تھے ،اجلاس کی صدارت مظفرحسین شاہ کر رہے تھے ،یہ وہی مظفر حسین شاہ صاحب ہیں جنہوں نے چند روز پیشتر چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں سات ووٹ مسترد قرار دیئے ،اجلاس شروع ہوا ارکان اسمبلی صاف شفاف کلف لگے کھڑکتے اجلے لباس میں اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے کلف لگا کاٹن کا قمیض شلوار ، ڈبل کیبن گاڑی ، سندھ کے وڈیروں کو ہمیشہ سے ہی پسندرہی ہے ایوان پہنچنے والے متمول وڈیرے مونچھوں کو تاؤ دینے میں مصروف تھے کہ پیپلز پارٹی کے چارجیالے ارکان اٹھے اور ق لیگ کے اقلیتی رکن ایشور لعل کے پاس آ کر جارحانہ انداز میں کھڑے ہوگئے ،وہ ایشور لعل کو ایوان سے باہر چلنے کا کہہ رہے تھے ایشور لعل کے انکار پر انہوں نے زبردستی کی ایشور لعل نے مزاحمت کی تو وہ چاروں اس پر پل پڑے یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا بعد میں عقدہ کھلا کہ ایشور لعل نے پیپلز پارٹی کی ایک خاتون رکن سندھ اسمبلی کو چٹھی لکھ بھیجی تھی جو انہوں نے اپنے جیالے ساتھیوں کو دے دی اور انہوں نے ایشور لعل کی اسمبلی میں دوران اجلاس ہی دھنائی کردی بعد اسپیکر نے یہ چٹھی لکھنے والے ایم پی اے ایشور لعل کی رکنیت پورے سیشن اور ان کی دھنائی کرنے والے جیالے اراکین کی رکنیت دو روز کے لئے معطل کردی،تب معطل ہونے والے ارکان میں سے ایک سلیم ہنگورو نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ سندھ کی روایت ہے کہ نوجوان اپنی غیرت پر سرکٹاتے رہے ہیں، ہم نے جو کیااس پر ہمیں فخر ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ ان چاروںمیں ایک موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ صاحب بھی تھے۔ مجھے پیپلز پارٹی کی ایک اور رکن بھی یاد آرہی ہیں ،محکمہ زراعت کا ایک افسر محمد الیا س ان پردیوانہ وار دل ہاربیٹھاخاتون جہاں جاتی یہ موجود ،وہ کوئی سیاسی پروگرام ہو کوئی سماجی تقریب ہو یہ صاحب اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پہنچ جاتے نوبت یہیں تک نہیں رہی اس عاشق نامراد نے کہیں سے خاتون کا ای میل ایڈریس لیااور عاشقانہ چٹھیاں لکھنا شروع کردیں ،قرار نہیں ملا توکسی طرح ان کے گھر کا ایڈریس لیا اور اپنے خون سے لکھے خط حوالہ ء ڈاک کرنے لگے آخر کار وہ عاجز آگئیںجس کے بعد پولیس بھی حرکت میں آئی اور اس عاشق نامراد کو حراست میں لے لیا گیا اس خاتون نے بتایا کہ انہیں تین ہزار ای میل لکھی گئیںاور خون سے لکھے خطوں کاحساب الگ ہے۔ ان دونوں واقعات کی تمہید کی وضاحت اگلی سطور میں ہوجائے گی پہلے ایک نجی یونورسٹی میں پریمی جوڑے کا وڈیو کلپ سامنے رکھیں جس نے ملک کے شرفاء کی نیندیں اڑا دی ہیں،والدین پریشان ہیں کہ ان تعلیمی اداروں کو کیا ہوگیا ہے، جناب کیا کلینڈروں کی الٹ پلٹ سے قرآن کے احکام بدل جاتے ہیں ؟ سوہنے رسول اللہ ﷺ کی احادیث تو روز قیامت تک کے لئے ہدائت کا سرچشمہ ہیںکیا اس کے گرد اکیسویں صدی کا احاطہ باندھ کر ہدائت سے محروم ہو جایاجائے ؟اس پریمی جوڑے کی حمایت میں وفاقی وزیر چودھری فوا د حسین بھی میدان میں ہیں اور شرمیلا فاروقی صاحبہ نے بھی سوشل میڈیا پرتوپ دم کر ڈالی ہے ۔ انہوں نے ٹوئٹ کی ہے کہ "Powerful! Expressive! Full of hope & love! More power to the youth!" میں شرمیلا فاروقی صاحبہ سے عرض کروں گا اگر مجمعے کے سامنے پرپوز کرتے ہوئے خود سے چمٹا لینا بوسہ لینا اتنا ہی متاثر کن اور امید افزاء ہے تووہ ایشور لعل پر پل پڑنے والے کل کے رکن اسمبلی اور آج کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی بھی مذمت کر ڈالیں۔ ایشور لعل نے بھلا کیا غلط کیا تھا اس نے تو صرف چٹھی ہی لکھی تھی ،ایک دوسری خاتون کو خون سے خط لکھنے والے نوجوان افسر نے بھی بھلا کس کے گھر کی دیوار پھلانگی کہ اس کی گوشمالی کی جاتی سترہ گریڈ کے ایک جونیئر افسر کی عمر ہی کیا ہوتی ہے وہ بھی نوجوان ہی تھا اور اسکا اظہار عشق صرف ای میل اور چٹھیوںتک ہی محدود تھا اگرچہ بات پندرہ سولہ برس پرانی ہے لیکن غلطی کا احساس کبھی بھی ہوسکتا ہے اورضمیر کبھی بھی جاگ سکتا ہے۔ آج انہیں اس جوڑے کی یہ حرکت درست لگ رہی ہے تو پھر سندھ اسمبلی میں ایشور لعل کی پٹائی یقینا قابل مذمت شرمناک افسوس ناک ہوئی۔ بات کو سمجھیںمسئلہ پرپوز کرنے کا نہیں ،اسلام پسند کی شادی کا مخالف نہیں۔ آقائے نامدار ﷺ کو خود حضرت خدیجہ ؓ نے اپنے لئے بطورنگہبان اور شوہر پسند کیاانہیں نکاح کا پیام بھیجا جسے سوہنے رسول ﷺ نے قبول فرماکر اپنے عقد میں لیا او ر ہم سب کو بتا دیا کہ اسلام پسند کی شادی کو مستحسن سمجھتا ہے ،اشو ،تنازعہ پرپوز کرنے کے طریقے کا ہے یوں سرعام ایک دوسرے کو پسند کرناضروری ہی تھا تو وہ نوجوان جوڑا اپنے ہم جماعتوں کے سامنے ایک دوسرے کو پھول دے دیتا یہ بہت کافی تھا ،پھول وصولنے کے بعد آپے اور جامے سے باہر ہونا نہیں چاہئے تھا۔ اگر اسے آزادی اور کسی کا حق قرار دیا جائے تو پھراسی لاہور کے اسپتال میں سی سی ٹی وی کیمرے کی وہ تصویر بھی سامنے رکھیں جس میں ایک نوجوان کے ہاتھوں میں جواں سال لڑکی کی لاش ہے جو گناہ کا بوجھ دھوتے ہوئے اسقاط حمل کے دوران جان سے گئی اور اسکا عاشق اسکا بے جان لاشہ اسپتال چھوڑ کر چلتا بنا ،خدارا ! اس بے حیائی کے گٹر پر سے ڈھکن نہ ہٹائیں۔ امریکہ اور یورپ کے پیچھے آنکھیں موندے نہ چلیں جو لوگ چلنا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں امریکہ میں بیالیس فیصد بچوں کی ولدیت کا خانہ خالی ہے اورآج وہاں کسی نوجوان کے لئے سب سے مشکل کام اپنے والد کی تلاش ہے۔