وفاقی کابینہ میں انقلابی تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دلچسپ تبصرہ کیا۔ فرمایا کہ دماغ نکل گیا۔ خالی کھوپڑی رہ گئی۔ اس تبصرے کی بنیاد غالباً وہ تبصرے ہیں جو سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی فراغت سے پہلے کے زمانے میں بہت سے تجزیہ نگار ازراہ تفنن کر تے آئے ہیں کہ پی ٹی آئی میں ایک ہی دماغ ہے اور اس کا نام اسد عمر ہے۔ خود پی ٹی آئی کی تشہیری مہم سے بھی یہی تاثر ملتا تھا۔ ویسے سرکٹ میں ایک سپر ہٹ بلکہ ایکسٹرا اور الٹرا سپر ہٹ فلم کی نمائش بھی جاری ہے۔ کھوپڑی بالعموم خالی ہی ہوتی ہے۔ بھری ہوئی ہو تو اسے سرکہا جاتا ہے۔ کھوپڑی نہیں۔ بہرحال بہتر ویلڈن فلم ہے۔ سکرپٹ کسی زبردست دماغ نے لکھا ہے اور ہدایت کاری تو اور بھی کمال کی ہے۔ کہتے ہیں بہت کامیاب فلم ہے اس لئے جلد نہیں اترے گی۔ مولا جٹ کا ریکارڈ توڑے گی۔ ٭٭٭٭٭ اسد عمر کی فراغت بہت سے لوگوں کے لئے غیر متوقع تھی۔ خود اسد عمر بلکہ وزیر اعظم کے لئے بھی۔ فراغت کا فیصلہ ‘ بقول باخبر راز داران کے ‘ وزیر اعظم نے کیا۔ ایک بات شگون کے حوالے سے یہ ہوئی کہ ایک روز پہلے خیالی قلعہ جات کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم نے جو خطاب کیا اس میں اسد عمر کی فراغت کا غیر ارادی اشارہ موجود تھا۔ انہوں نے اسد عمر کی خدمات کو شاندار قرار دیا اور انہیں خراج عقیدت ادا کیا وہ خراج تحسین کہنا چاہتے تھے لیکن زبان کی لازمی اور روایتی پھسلن کے تحت خراج عقیدت کے الفاظ منہ سے نکلے۔ شگوفیات پر یقین رکھنے والوں کو یہ بات کھٹک گئی اور وہ سمجھ گئے کہ اسد عمر فارغ ہیں۔ خراج عقیدت ہمیشہ جانے والوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اسد عمر اب فرماتے ہیں کہ وہ عوام کا کچومر نکالنے کو تیار نہیں تھے چاہے انہیں جتنی بھی گالیاں پڑیں۔ اسد میاں‘ اب اتنی بھی کسر نفسی نہ کریں۔ عوام کا کچومر تو آپ نے حد سے بڑھ کر نکالا اور ایسا نکالا کہ ستر برس کے ماضی میں بھی کسی نے نہیں نکالا۔ ہاں یہ کہتے تو ٹھیک تھا کہ آپ نے مزید کچومر نکالنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جتنا نکال دیاہے اسی پر گزارہ کرو۔ ایک رپورٹ سے بھی آپ کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی کچھ سخت شرائط ہے آپ نے مان لی تھیں۔ کچھ پر ہچر مچر کی‘ اس ہچر مچر پر آئی ایم ایف نے آپ کو نکلوایا باہر کیا اور خالص اپنا بندہ لے آئی۔ معترضین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا بندہ آئی ایم ایف کا بھلا چاہے گا‘ پاکستان کا کیوں چاہے گا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ بھلا کسی کا بھی ہو اچھا ہے۔ آئی ایم ایف کا بھلا ہو جائے ہماری خیر ہے اور ہماری خیر تو سب کو پتہ ہے۔ ستر برس سے چل رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا بھلا‘ آئی ایم ایف کو چاہنے والوں کا بھلا۔ اور اسد عمر نے یہ تو بتایا ہی نہ وہ کون تھے جو کچومر نہ نکالنے پر گالیاں دیتا ہے؟ ٭٭٭٭٭ انقلابی تبدیلیوں کی زد میں وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی آ گئے ان کی جگہ فردوس عاشق آ گئیں۔ اعتراض کرنے والوں کو اس پر بھی اعتراض ہے حالانکہ کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ مانا کہ فواد چودھری سخت خوش اخلاق اور شیریں بیان تھے لیکن خاں صاحب کو تو جستجو یہ تھی کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ، وہ زیادہ خوش اخلاق اور زیادہ شیریں بیان وزیر اطلاعات چاہتے تھے۔ سو انہیں مل گیا۔ مطلب مل گئی۔ یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ خاں صاحب ہمہ قسم کی اخلاقیات کے بہت قائل بھی ہیں اور عامل بھی۔ ٭٭٭٭٭ وزارت کے علاوہ محترمہ فردوس کو ایک مبارک اور بھی ہو۔ مگرمچھ پکڑنے والی مشین نے ان کے خلاف کیس بند کر دیا ہے ۔نو کرکی تے نخرہ کی۔ خسرو جیسا بخت رکھنے والے وزیر کے خلاف بھی اربوں روپے کی ’’ایمانداری‘‘ والا کیس حکومتی حکم پر بند کیا جا چکا ہے۔ دوائیوں والے وزیر سے وزارت تو لے لی گئی پر کیس نہیں بنے گا‘ کھاتہ کھلا تو ایک بڑے ’’عہدیدار‘‘ تک بات جائے گی۔ وہاں بات گئی تو معاملہ گڑبڑ ہو سکتاہے۔ ایسا ہوا تو مولانا فضل الرحمن پھر سے کاغذات جمع کرا دیں گے اور سننے میں یہ آیا ہے کہ اس بار زرداری کا ووٹ مولانا کو ملے گا۔ ٭٭٭٭٭ محترمہ کیا اکیلی وزارت سنبھال سکیں گی؟ ایک معاون کی ضرورت ہو گی اور سنا ہے‘ شاہ فرمان سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ موصوف ان دنوں گورنر ہیں جو چھوٹا عہدہ ہے۔ معاون وزیر اطلاعات ہونا بڑا عہدہ ہے۔ مشہوری بھی زیادہ ہے۔ اچھے اطلاعاتی وزیر یا معاون کے لئے ضروری ہے کہ وہ غلط عبارت کا درست ترجمہ کرے۔ ایک افغان’’بزرگوں‘‘ سے ملنے آیا۔ فارسی میں اپنے بیٹے کے آپریشن اور بیماری کی کتھا سنائی۔ شاہ فرمان نے اردو میں ترجمہ کیا اور بزرگوں کو بتایا‘ یہ آپ کی تعریفیں کر رہا ہے۔ بزرگ یہ ترجمہ سن کرحیران ہوئے۔ انہیں ہی وزیر یا معاون وزیر تبدیلی کو مطلوب ہے۔ اوپر سے صادق و امین تو ہیں ہی‘ ترجمے کے بعد بھی۔ ٭٭٭٭٭ بزرگوں کی طبیعت ان دنوں پربہار نہیں اورکزئی جلسے میں بھی اکھڑے اکھڑے تھے۔ شاید حالات کی وجہ سے یا پھر جلسے کے ’’اختصار‘‘ کو دیکھ کر۔ بہرحال‘دوران خطاب یہ فقرہ ان کے منہ سے نکلا کہ حکومت میں آ کر ٹورازم کو فروغ دیں گے۔ حکومت میں آ کر؟ شاید زبان پھسل گئی‘ حسب معمول یا پھر یہ مراد ہو کہ دوبارہ حکومت میں آ کر۔ اس بار اپوزیشن کو کنٹینر اور کھانا دینے کی بات نہیں کی‘ ’’ترس ناک‘‘ لہجے میں فرمایا‘ ہم نے ایسا کیا گناہ کر دیا ہے کہ حکومت ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔