اسکرینوں پر سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ہشاش بشاش ،خوش باش اپنے بھائی میاں شہباز شریف اور بیٹوںحسن ،حسین کے ساتھ اپنے گھر سے اسپتال آتے جاتے دیکھ رہا ہوں ۔ اور ادھر میاں صاحب کے سبب تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک اور محاذ کھل گیا ہے۔ ۔ ۔ ہمارے خان صاحب نے میاں صاحب کی روانگی کے اگلے دن یہ بیان دا غ ڈالا اور وہ بھی براہ راست چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزا ر احمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہ وہ عدلیہ کو طاقتوروں سے آزاد کرائیں اور اس حوالے سے وہ عدلیہ کا بھرپور طور پر ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔خان صاحب نے یہ بیان حویلیاں کے کسی دور افتادہ مقام میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب کا یہ خیال نہیں تھا کہ اگلے ہی دن انہیں چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کاکرارہ جواب سننے کو ملے گا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ میں جو چند معتبر ترین چیف آتے رہے ،ان میں اِن کا نام نمایاں ترین چیف جسٹسوں میں لیا جائے گا۔اپنے فیصلوں میں بھی وہ اپنے دھیمے پن اور فکر و دانش کو برقرار رکھتے ہیں۔مگر چیف جسٹس کا ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر بھڑکنا قطعی طور پر جائز ہی لگتا ہے۔ چیف جسٹس نے خان صاحب کے اس بیان کو tauntیعنی بہ زبان اردو طعنے سے تعبیر کیا۔ ۔ ۔ اور پھر کھل کر اپنی عدلیہ کی صفائی میں بیان دیتے ہوئے یہاں تک بڑھ گئے کہ اُن کی عدلیہ نے پیپلز پارٹی کے ایک طاقتور وزیر اعظم کو اقتدار سے محروم کیا ۔ ۔ ۔ اور ایک دوسرے تین بارمنتخب ہونے والے وزیر اعظم کو جیل بھیجا ۔اور ایک اور فوجی ڈکٹیٹر صد ر مشرف کو وہ عدالتی کٹہرے میں لا کر جلد ہی سزا دینے والے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا ذکر کر رہے تھے تو غیر معمولی طور پر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ مٹھی بھینچ کر سابق صدر کی طرح کھڑے کئے۔ ۔ ۔ ایسا لگتا تھا کہ چیف صاحب بڑی مشکل سے اپنے غصے پر قابو پا رہے ہیں۔چیف صاحب کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت عدلیہ نے نہیں ، خودوزیر اعظم نے دی ہے ۔ چیف جسٹس کا یہ بیان جس طرح اخباروں کی شہ سرخی اور اسکرینوں کی بریکنگ نیوز بنا اُس سے تو یہ لگتا تھا کہ کپتان کی ٹیم کے بڑبولے کھلاڑی چیف صاحب کے جواب میںجوابی موشگافیاں شروع کردیں گے۔ ۔ ۔ خاص طور پر مجھے خدشہ تھا کہ اس وقت خان صاحب کے خاص قانونی مشیر ڈاکٹر بابر اعوان تو ضرور اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کریں گے۔مگر ہمارے وزیر اعظم نے ذرائع کے مطابق۔ ۔ فوری طور پر سینہ بہ سینہ اپنے وزیروں ،مشیروں اور معاونین کو یہ پیغا م بھیجا کہ وہ چیف صاحب کے حوالے سے اپنی زبانیں بند رکھیں گے۔پاکستان کے سابق وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ ایک سنتا نہیں ،دوسرا سمجھتا نہیں۔ ۔ ۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے محترم عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ کا بھاری بھرکم عہدۂ جلیلہ کاندھوں پر اٹھانے کے بعد سننے اور سمجھنے کا خانہ تو بند کر ہی چکے ہیں ،کہ اگلے ہی دن اُن کا یہ بیان بھی شہ سرخی بنا کہ۔ ۔ ۔ میں اکیلا ہی لڑوں گا۔وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو ان کی بے بسی اور بے کسی ہی سمجھا جائے گا ۔ ۔ ۔ کہ وزیروں ،مشیروں،معاونین کی جو ہمہ وقت فوج ظفر موج بنی گالہ میں سربہ سجود رہتی ہے ،خان صاحب کا اب ان پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا۔جب کوئی منتخب سربراہ مملکت سویلین ہو یا فوجی اپنے کو عقل ِ کل سمجھ بیٹھے اور یہ دعویٰ کرتا نظر آئے کہ وہ تمام محاذوں پر اکیلا ہی لڑے گا ۔ ۔ ۔ تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اور مملکت کا منتخب وزیر اعظم ہوتے ہوئے خود کو اب تنہا محسوس کر رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں 1970ء کی دہائی کے بعد سے ٹرائیکا کی سیاسی اصطلاح سامنے آئی تھی۔ یعنی اقتدار کے تین ستون ۔ ۔۔ فوج، عدلیہ اور منتخب صدر یا وزیر اعظم ۔ بھٹو صاحب نے کو شش کی تھی کہ اپنے اقتدار میں آکر وہ اس ٹرائیکا کی تینوں کیپوں کو اپنے سر پر سجا لیں۔ لیکن جیسے جیسے وہ اپنے سیاسی نظرئیے اور جانثار ساتھیوں سے محروم ہوتے گئے ،بتدریج ان کا اقتدار عدلیہ اور فوج کے رحم و کرم پہ رہ گیا۔جولائی 1977ء کو جب وہ اپنے اقتدار سے محروم ہوئے اور پھر اپریل1979ء کو پھانسی چڑھے تو ہمالیہ تو کیا روتا۔ ۔ ۔ خود ان کی پارٹی کے حامیوں نے بھی خوشی کے شادیانے بجائے ۔1990ء کی دہائی میں ایک بار پھرٹرائیکا نے سراٹھایا۔جس کے سرخیل سابق صدر غلام اسحاق خان تھے۔اور جنکے دائیں بائیں عدلیہ اور فوج کھڑی تھی ۔اور poorمنتخب وزیر اعظم ان کے رحم وکرم پر۔ پہلے بھی ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں سن2000ء کے آتے آتے دو دہائی تک حکومت کرنے والے ہمارے میاں نواز شریف کے سر میں یہ سودا سما گیا تھا کہ بار بار کی حکومت سے نکلنے کی رسوائی سے بہتر ہے کہ دونوں مقتدر اداروں سے ایک ساتھ نمٹ لیاجائے۔نتیجہ جنرل پرویز مشرف کی صورت میں سامنے آیا۔ ۔ ۔ یقینا جنرل پرویز مشرف نے ایک دہائی بڑے ٹھاٹ سے حکومت کی ۔ مگر ان کے سر میں بھی جب یہ سودا سمایا کہ وہ وردی پر شیروانی بھی پہن لیں تو اقتدار سے اس طرح محروم ہوئے کہ ان کے ساتھ محض ان کا ذاتی خاندان رہ گیا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کے ذکر کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ ان دونوں پارٹیوں کے سبب وطن عزیز میں جو تباہی و بربادی ہوئی ،اُس کی آج دونوں سزا بھی بھگت رہے ہیں۔یقینا تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان جب جولائی 2018ء میں اقتدار میں آئے تھے تو چہار جانب سے بڑے دھوم دھڑکے سے ان کااستقبال ہوا تھا۔ کرکٹ اورخدمت کے میدان میں جو انہوں نے بے پناہ کام کیا تھا،اُس سے پاکستانی عوام کو یہ امید ہوچلی تھی کہ انہیں بالآخر ایک نجات دہندہ مل گیا۔ملک کے تمام ہی مقتدر ادارے خان صاحب کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔اپوزیشن نام کی کوئی ایسی موثر قوت نہیں تھی جو ان کو چیلنج کرتی۔ ۔ ۔ مگر وطن عزیز کی بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے کروڑوں دلوں میں دھڑکنے والے وزیر اعظم عمران خان یک و تنہا کھڑے ہیں۔اور اس بات کا بڑے فخر سے اعلان بھی کررہے ہیں کہ وہ اکیلے ہی لڑیں گے۔ جب کوئی حکمراں اس طرح کا دعویٰ کرنے لگے تواُس کے انجام سے خوف آنے لگتا ہے۔خان صاحب کے لئے خاص طور پر اس لئے بھی زیادہ کہ وہ ایک تو کرپشن سے پاک رہے ،دوسرے قوم کا حقیقی معنوںمیں درد بھی رکھتے ہیں۔