تحریک انصاف کے انفارمیشن منسٹر محترم فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں اسپیکر نیشنل اسمبلی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک مشترکہ قرارداد اسمبلی سے پاس کرا کے نوبل پیس پرائز کمیٹی میں بھیجیں کہ محترم وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی جنگی جنون کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مقابلے میں جو مدبرانہ کردار ادا کیا ہے اسکے سبب بجا طور پر وہ نوبل پیس پرائز کے مستحق ہیں۔ انفارمیشن منسٹر محترم فواد چوہدری سمیت جن اراکین اسمبلی نے یہ قرارداد اسمبلی میں جمع کرائی ہے ان میں اکثریت کا تعلق تو تحریک انصاف سے ہے جن کی اپنے قائد سے والہانہ عقیدت یقینا اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ اس طرح کا مطالبہ کرتے مگر ان میں چندلیگی اور پی پی کے ایسے ارکان بھی شامل ہیں تو کوئی بہت زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ کہ چاپلوسی اور خوشامد میں ہماری سیاسی جماعتوں کی دوسرے تیسرے درجے کہ قیادت ہمیشہ دو بلکہ چار قدم آگے رہتی ہے، یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان اراکین اسمبلی میں سے بیشتر ’‘’نوبل انعام‘‘ کی اہمیت اور تاریخ سے نابلد ہیں۔ ، اس حوالے سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا بھی میدان میں اتر آیا ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ ابھی اس قرارداد کی سیاہی سوکھی بھی نہ تھی کہ محترم وزیر اعظم کا یہ بیان آ گیا کہ وہ اس انعام کا خود کو حقدار نہیں سمجھتے بلکہ جو مسئلہ کشمیر حل کرائے وہ اس انعام کا مستحق ہے۔ اب خان صاحب عالمی سیاست کے بھلے ہی عظیم کھلاڑی نہ ہوں مگر آکسفورڈ کے وزیر اعظم عمران خان اتنے بھولے اور بے وقوف بھی نہیں کہ اس پر ان کی بانچھیں کھل جاتیں اور اس کے لیے فوری طور پر کسی ٹاسک فورس کا بھی اعلان کر دیتے، بد قسمتی سے حکمرانوں کی چاپلوسی اور خوشامد سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے، سندھ کے مشہور راشدی گھرانے کے انتہائی پرھے لکھے دانشور اور صحافی پیر محمد راشدی ایوب خان کے دور میں ملائیشیا میں سفیر تھے، پیر صاحب نے ملائیشیا کا ماڈل سامنے رکھتے ہوئے صدر جنرل ایوب خان کو ایک طویل خط کی صورت میں ایک تجویز پیش کی وہ پالیمانی صدارتی اور بی ڈی سسٹم پر خاک ڈالیں اور پاکستان میں بادشاہت قائم کر دیں ، کئی سو صفحات پر مشتمل اس دستاویز کو صدر ایوب خان نے اپنے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھیج دی جس پر بھٹو صاحب نے ایسے ریمارکس لکھے کہ بعد میں ایوب خان نے بھٹو صاحب سے شکایتاً کہا پیر صاحب کی تجویز ایسی بھی نہ تھی کہ اسے زیر بحث نہ لایا جا سکے، پاکستان کے لیے بھٹو صاحب کے اتنے عظیم الشان کارنامے ہیں کہ جب بھی قلم اٹھاتے ہوئے ان کی شخصیت اور سیاست کے منفی پہلو کی طرف آتا ہوں تو انگریزی زبان میں ’’ دل خوش نہیں ہوتا‘‘ مگر تاریخ بھری پڑی ہے کہ بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتیں ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت پر مارچ 77 کے آتے آتے نزا کا عالم تھا، بھٹو صاحب کے نادان دوستوں نے مشورہ دیا کہ انہیں بلا مقابلہ الیکشن جیتنا چاہیے جس سے ساری دنیا میں یہ پیغام جائے گا کہ ان کے آبائی شہر لاڑکانہ میں کوئی ایک سیاسی مخالف نہیں ، بھٹو صاحب لاڑکانہ کہ ایک دوسرے درجے کے رہنما جان محمد عباسی کو با آسانی شکست دے سکتے تھے ، مگر غریب عباسی کو نا صرف یہ کہ کاغذات نامزدگی نہیں بھرنے دیے بلکہ اغواء بھی کر لیا گیا، اگلے دن قومی اسمبلی کا بلامقابلہ رکن منتخب ہونے پر اسلام آباد میں انفارمیشن ڈیپارٹمنیت نے 6X6 سینی میٹر کی ایک تصویر سارے اخباروں کو صفحہ اول پر اس کیپشن کے ساتھ چھاپنے کا حکم دیا گیا ’’عظیم رہنما عظیم اسٹیٹس مین ذوالفقار علی بھٹو بلا مقابلہ منتخب ہو گئے‘‘۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد انگریزی کے ایک معتبر اخبار کے ایڈیٹر نے بڑے تاسف کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے کراچی پریس کلب میں مجھ سے کہا کہ ان کی 35 سالہ صحافتی تاریخ کا یہ سیاح ترین دن تھا جب انہیں انفارمیشن منسٹری کے حکم پر صفحہ اول پر اتنی غیر پروفیشنل تصویر شائع کرنی پڑی۔ یہ لیجیے بات وزیر اعظم عمران خان کو نوبل پیس پرائز دینے کی تجویز سے شروع ہوئی جسے انہوں نے رد بھی کر دیا مگر ابھی ہمارے ان صاحب کی حکومت کو سال بھی پورا نہیں ہوا کہ ان کا میڈیا مینیجر کیسی دور کی کوڑی لایا کہ جس پر جگ ہسائی ہی ہونی تھی، بر صغیر پاک و ہند میں پہلا نوبل پیس پرائز عظیم شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو ملا تھا ، جس وقت ٹیگور کو یہ انعام ملاتو اس وقت ایک حلقے کی جانب سے یہ پر زور آواز اٹھائی گئی تھی کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اس انعام کے مستحق ہو سکتے ہیں، تقسیم ہند کے وقت مہاتما گاندھی قائد اعظم محمد علی جناح اور جواہر لال نہرو جس پائے کے سیاستدان تھے کہ ان کا نام بھی اس فہرست میں آ سکتا تھا، وطن عزیز میں ڈاکٹر عبدالسلام وہ واحد پاکستانی ہیں جنہیں سائنس کے شعبہ میں نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیا، ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ جو سلوک سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں نے کیا تھا اس کا اس وقت میں ذکر نہیں کروں گا ، ہاں… مولانا عبدالستار ایدھی کی ایسی خدمات ضرور تھیں کہ انہیں نوبل کے لیے نامز د کیا جاسکتا تھا ، کہ بھارت کی مادام ٹریسا سے کم ہمارے ایدھی صاحب کی خدمات نہ تھیں کہ جنہیں نوبل پرائز دیا گیا، وزیر اعظم عمران خان کو نوبل پیس پرائز دینے کے لیے ان کی حکومت کے میڈیا منیجر نے جو قرارداد جمع کرائی ہے اس سے لگتا ہے کہ مکمل نہیں لیکن بڑی حد تک وہ اس گھیرے میں ہیں جہاں سے صرف وہ واہ واہ اور سبحان اللہ کی صدائیں ہی سننے کو ملتی ہیں ، اس بارے میں دو رائے نہیں کہ خان صاحب کی حکومت کو ابھی سات ماہ ہی ہونے کو آ رہے ہیں ایمانداری کی حد سے بڑھ کر وہ تمام محاذوں پر لڑ بھی رہے ہیں حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی ایک معتبر قائد کی حیثیت سے ان کا کردار نکھر کر سامنے آیا ہے مگر نوبل پرائز 14 اگست اور 23 مارچ کو بٹنے والی ستاروں اور تمغوں کی ریوڑی نہیں ، محترم انفارمیشن منسٹر نے یقینا میڈیا محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے مگر پاکیزگی داماں کی اتنی حد پھلانگنا بھی اپنے قائد سے دوستی نہیں دشمنی کی زمرے میں لی جائے گی، سو اے میرے سویٹ پرائم منسٹر ذرا بچ کے…