جنابِ وزیر اعظم ! طاقتور کو پکڑنے کے لیئے کوئی ایسا قانون بن ہی نہیں سکتاجسے خود طاقتورہی تحریر کریں۔ انسانی قوانین کے دو ہی مآخذ ہیں۔۔ ایک بادشاہ، ڈکٹیٹر، فوجی آمر یا کیمونسٹ مطلق العنان، جبکہ دوسرامآخذ عوام کی نام نہاد حاکمیت جسے ’’جمہوریت‘‘ کہتے ہیں۔ پہلے والا مآخذ توکب کا خواب ہوچکا۔ بادشاہ اب تاج محل اور اہرامِ مصر جیسے مقبروں میں محو آرام ہیں۔ جو موجودہ دور میں ہیں انہیں، عالمی جمہوری قوتوں نے بیساکھیوں کے سہارے کھڑا کر رکھا ہے۔ رہے فوجی آمر تو ان بیچاروں کا کیا ہے، جب عالمی جمہوری طاقتوں کو ضرورت پڑتی ہے تو جنرل سیسی کو مصر میں صدر مرسی کی اسلامی حکومت کے خاتمے کے لیئے، جنرل پنوشے کو چلی میں آلندے کی کیمونسٹ حکومت گرانے کے لیئے، ضیاء الحق کو روس کے خلاف افغان جہاد کی سربراہی کے لیئے اور پرویز مشرف کومسلم اُمہ کے خلاف بدنام ِزمانہ دہشت گردی کی جنگ میں مہرہ بنانے کے لیئے بیرکوں سے نکال کر مسند اقتدار پر بٹھادیا جاتا ہے۔ ان ’’بیچاروں‘‘ کی ازخود قانون تحریر کرنے کی اوقات ہی کیا ہے۔ ضیاء الحق اپنی خواہش کے باوجود اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں کر سکا بلکہ اس نے جو نافذ کیئے ان سے اسلام کا چہرہ ضرور مسخ ہوا۔ اسی طرح مشرف کو بھی نہ چاہتے ہوئے ان بدترین سیاستدانوں کو این آر او دینے پڑے جن کے خلاف وہ بولتا رہتا تھا،کیونکہ ان کی پشت پر عالمی جمہوری قوتیں کھڑی تھیں۔ اس وقت دنیا بھر میں نافذ قوانین کا مآخذ صرف اور صرف عالمی جمہوری سودی مالیاتی نظام ہے۔ اس نے اس دنیا کو چلانے کے لیئے قوانین کا ایک خاکہ (Frame Work)دے رکھا ہے اور دنیا کو بزورِ قوت اس بات پر مجبور کیا جا چکا ہے کہ، ایسے قوانین خواہ تمہاری منتخب اسمبلیاںبنائیں یا پھر اقتدار پر قابض ڈکٹیٹر ۔۔تم کبھی بھی اس ’’عالمی خاکے‘‘ سے باہر قانون سازی نہیں کروگے۔ جن حکمرانوںنے اس عالمی جمہوری سودی مالیاتی نظام کے خاکے سے باہر نکلنے کی کوشش کی، ان ملکوں پر اس نظام کے ’’غنڈے‘‘ چڑھ دوڑے۔ کچھ کو اندورن ملک اپنی پالتو افواج کے ذریعے عبرت کا نشان بنوایا گیا۔ جہاں ایسا ممکن نہیںتھاوہاں، افغانستان ، عراق اور لیبیا کی طرح فوج کشی کر دی گئی۔ قوانین کیلئے عالمی خاکہ یہ ہے، (1)عالمی سودی نظام کے تحت لازمی مصنوعی کاغذی کرنسی، (2) بینکاری کا سود(3) خواتین کی ہر شعبہ میں نمائندگی(4) آزادی ٔ اظہار اور انسانی حقوق کے نام پر اخلاقی اقدار اور معاشرتی زندگی کے گھروندوں کومسمار کرنا ۔ افغانستان میں جب ملا محمد عمرؒ کی اسلامی انقلابی حکومت قائم ہوئی تو رابن رافیل اسی قانونی آؤٹ لائن کے مطابق 28 مطالبات کی ایک لسٹ لے کر افغانستان گئی اور کہا کہ عالمی برادری چاہتی ہے کہ آپ ان نکات کے مطابق قوانین بنائیں۔ اس خاتون کو درویش صفت حکمران ملا عمر نے اپنے کچے مکان میں بیٹھے بیٹھے اسے دروازے کا راستہ دکھادیا۔ قوانین کا یہ وہی عالمی خاکہ ہی تو ہے جس کے نفاذ کے لیئے یورپی یونین پاکستان میں نو ہزار مجرموں کو پھانسی پر جھولنے سے رکوادیتی ہے اور توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کے لیئے مکمل غنڈہ گردی کے ساتھ للکارتی ہے۔ دنیا پر قابض اس عالمی جمہوری سودی مالیاتی نظام کا مرتب کردہ یہ خاکہ آمریتوں اور جمہوریتوں دونوں کے لیئے یکساں ہے۔ نہ کسی آمر کو اس بات کی اجازت ہے کہ اس خاکے کے باہر قانون بنانے کی جرأت کرے اور نہ کوئی ’’جمہوریت زادہ‘‘اپنی فکر کو اتنا بلند کرے کہ اس خاکے سے باہر قانون بنانے لگ جائے۔ عالمی پابندیوں اور مجبوریوں کو ایک منٹ کے لیئے بھول جائیں اور یہ سوچیں کہ پورے ملک سے چار سو طاقتور سرمایہ دار، جاگیر دار، صنعت کار یا پھران تینوں کے سرمائے پر پلنے والے ’’امیدوار‘‘الیکشن جیت کر اسمبلی پہنچیں جائیں تو کیا وہ ایک ایسا قانون خود بنائیں گے جو خود انہی طاقتور وں پر ہاتھ ڈال سکے۔ خانصاحب! اس سے بڑی حماقت اور خام خیالی اور کیا ہو سکتی ہے۔ دنیا کے ’’مہذب کہلائے جانے والے ’’جمہوری ‘‘معاشروںمیں بھی بے شمار طاقتور طبقات ایسے ہیں جنہیں قوانین بنا کر ہی قوانین سے بالاتر رکھا گیا ہے۔ امریکی ممبرانِ کانگریس کے بنائے گئے قوانین کے مطابق امریکی سرمایہ داروں نے ٹیکس چوری کرنے کے لیئے تقریباً پندرہ ہزار ارب ڈالر کیمن آئی لینڈ جیسے آف شور جزیروں میں رکھے ہوئے ہیں اور کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا،کیونکہ ایسا کرنے کے لیئے انہیں قانونی چھتری میسر ہے ،بلکہ پوری جمہوری اسٹبلشمنٹ ان کے مفاد کے تحفظ کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔دنیا میں نافذ تمام قوانین جو انسانوں نے بنائے ہوئے ہیں ان میں جرم کی معافی موجود ہے۔ پاکستان کے آئین میں صدر پاکستان کے پاس آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت مجرم کو معاف کرنے، سزا کو ملتوی کرنے، کچھ عرصہ کے لیئے روکنے، اس میں تخفیف کرنے اور اسے معطل یا تبدیل کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ یہ وہ اختیار ہے جو اسلامی شریعت کے تحت سید الانبیاء ﷺ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ شریعت میں ایک قاتل کو صرف اس کے ورثاء معاف کرسکتے ہیں، ان کے علاوہ کسی کو یہ اختیار حاصل نہیںہے۔ اسی طرح اگر ایک دفعہ حد نافذ ہو جائے تو خواہ وہ سنگسار کرنے، کوڑے لگانے یا ہاتھ کاٹنے کی سزا ہو، اسے کوئی شخص نہ تو معاف کر سکتا ہے، نہ معطل اور نہ ہی اس میں تحفیف کر سکتا ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر وہ مشہور حدیث ہے جو حدیث کی ہر بڑی کتاب میں ملتی ہے اور جسے خان صاحب! آپ بہت سناتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق بنی مخزوم کی ایک عورت فتح مکّہ کے وقت چوری کرتے پکڑی گئی۔ قبیلے والوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو سفارش کرنے کے لیئے کہا، آپؐ کا اسامہ کی بات سنتے ہی چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس کے بعد آپؐ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، ’’تم میں سے پہلے لوگ صرف اس لیئے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی معزز اور باحیثیت آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور اور بے حیثیت کرتا اس پر حد نافذ کرتے‘‘۔ پھر فرمایا، ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنتِ محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ دیتا ‘‘(صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی ماجہ، سنن نسائی)۔ معاف کرنے کا یہ اختیار صرف صدر کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف قوانین کی بے شمار دفعات میں بھی موجود ہے ،جسے بڑی خوبصورتی سے اسطرح بنایا گیا ہے کہ وقت پڑنے پر اسے طاقتور کے حق میں استعمال کیا جاسکے۔ تفتیش کے مرحلے پر کون کیس ختم کر سکتا ہے، پراسیکوشن کو مقدمہ داخل دفتر کرنے کا کہاں تک اختیار ہے، عدالت سے چالان سے پہلے اور چالان کے بعد کیس کیسے ختم کروایا جا سکتا ہے۔ صوبائی یا مرکزی حکومتیں کیسے عدالت سے مقدموں کو واپس لینے کا اختیار رکھتی ہیں۔ یہ ہے ایسے قوانین کی تیز رفتار پٹڑی جس پر چھوٹے سے بڑے تک ہر قسم کے ’’این آر او‘‘ کی گاڑیاں آسانی سے دوڑتی ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق ایک عام ملزم کا بھی اسکی حیثیت کے مطابق مقدمہ داخل دفتر کیا جاسکتا ہے اور نوازشریف جیسا صاحب حیثیت بھی کسی قانون کے بغیر، اپنے لیئے عدالتوں سے ایک نیا قانون تخلیق (Precedent)کرواتا ہے جس کے تحت سزا یافتہ مجرم کو بھی علاج کی خاطر ایک ایسے ملک میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے کہ جس ملک پر نہ تو اجازت دینے والی عدالت کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کی کوئی دسترس حاصل ہے۔ عمران خان صاحب! ماتم بہت ہو چکا۔ ستر سال سے یہی ہو رہا ہے۔ یاد رکھیں !مجرم پر ہاتھ اللہ کے قانون کے نفاذ سے ہی ڈالا جا سکے گا۔ اس لیئے کہ اللہ کے قانون میں ترمیم ، تبدیلی یا خاتمے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہوتا۔