بشریٰ مانیکا تو پردہ کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہلیان پاکستان نئے وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب میں اپنی خاتون اول کو ان کے ہمراہ نہیں دیکھ پائیں گے، اور نہ ہی دیگر قومی نوعیت کی تقریبات میں وہ خان صاحب کے شانہ بشانہ دکھائی دیں گی۔تاہم خان صاحب کی سابقہ اہلیہ ریحام خان اپنی داستانوں کے ساتھ ہر جگہ نظر آتی ہیں۔یہ ایک ایسی عورت کی داستانیں ہیں جسے مبینہ طور پر اپنے دونوں سابقہ شوہروں کے ہاتھوں تکالیف سہنی پڑی تھیں۔ خان صاحب پاکستان کے قیادتی منصب کے لئے منتخب کئے جا چکے ہیں۔ ایسے میں ریحام خان کی ان کے خلاف زہر افشانیاں روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔دوسری طرف خان صاحب کی پہلی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ نے بھی ان کی فتح کے بارے میں ایک ٹویٹ کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ “22 years later, after humiliations, hurdles and sacrifices, my sons’ father is Pakistan’s next PM. It’s an incredible lesson in tenacity, belief & refusal to accept defeat. The challenge now is to remember why he entered politics in the 1st place. Congratulations @ImranKhanPTI”. یعنی بائیس برس تک ذلتیں اور مشکلات جھیلنے اور قربانیاں دینے کے بعد میرے دونوں بیٹوں کا باپ بالآخرپاکستان کا اگلا وزیر اعظم بن رہا ہے۔ یہ عزم و ہمت، یقین اور شکست قبول کرنے سے انکار کے حوالے سے ایک شاندار سبق ہے۔ چیلنج اب یہ ہے کہ عمران خان یہ یاد رکھیں کہ وہ سیاست میں کس مقصد کے تحت داخل ہوئے تھے۔جمائما گولڈ سمتھ کا یہی مشور ہ اس ٹویٹ کی بنیادی بات ہے۔ خان صاحب کو نہیں بھولنا چاہئے کہ سیاست میں حصہ لینے سے ان کی اصل غرض کیا تھی، اور یہی اس وقت ان کے لئے ایک چیلنج ہے۔اس وقت خان صاحب کے اردگردبھانت بھانت کے ’’مشیر‘‘ جمع ہو چکے ہیں اور سبھی اس کوشش میں ہیں کہ خان صاحب سے کچھ نیاز حاصل کر لیں۔ تاہم خان صاحب کی اولین اخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان مردوں و خواتین، اور خاص طور پر خواتین کے مشوروں کو اہمیت دیں جنہوں نے اپنا وقت، وسائل اور توانائیاں خا ن صاحب کے اس خواب کی تکمیل کے لئے قربان کی ہیں جو انہوں نے بائیس سال پہلے دیکھا تھا۔خان صاحب، اس وقت جبکہ موقع پرست لوگ آپ کے وفاداروں کے طور پر آپ کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں، آپ اپنے اصل اور دیرینہ وفاداروں کو خدا را نظر انداز نہ کیجئے گا۔ برطانیہ کی تاریخ کی کامیاب ترین وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا ایک قول ہم یہاں درج کرنا چاہیں گے، وہ کہتی تھیں کہ اگر مشورے سننے ہوں تو مردوں سے بات کیجئے اور اگر عملی طور پر کچھ کروانا مقصود ہو تو پھر عورتوں سے کہئے۔یہ کس قدر سچی بات ہے۔یہ عورتیں ہی ہیں جو خان صاحب کی خواہشات اور احکامات کو عملی جامہ پہنا سکتی ہیں، جبکہ مرد تو ذاتی طاقت و اقتدار کے حصول کے کوششوں میں ہی مصروف رہیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ درست اور دانش مندانہ طور پر افراد کے چنائو کا ایک بہت بھاری بوجھ اس وقت خا ن صاحب کے کندھوں پر ہے لیکن اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم عوام ان کی قائدانہ صلاحیتوں پہ بھروسہ کریں تو انہیں یہ کام کرنا ہی ہو گا۔مارگریٹ تھیچر نے یہ بھی کہا تھا کہ جس کام کے درست اور اہم ہونے کے بارے میں آپ کو معلوم ہو ، چاہے اس کا کرنا دشوار ہی کیوں نہ ہو، تو پھر خود کو ایک قاعدے کے تحت منظم کر کے وہ کام کر گزرنا ہی انسان کے لئے باعث عزت و افتخار و اطمینان ہوتا ہے۔ سو خان صاحب، کراچی سے خیبر تک ان خواتین کی کارکردگی پہ ایک گہری نظر ڈالیں جو آپ کے ساتھ وفاداری میں ثابت قدم رہی ہیں۔مخصوص نشستوں کی ٹکٹیں انہی کو دیجئے گا، ان لوگوں کو نہیں جو نئے نئے آپ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں اور آ پ کی حمایت کے محض وعدے کر کے ماضی کے اپنے کرپٹ کرتوتوں کے تسلسل کو برقرار رکھیں گے۔خاکسار کی ایک حقیرتجویز ہے کہ دانش مندمردوں اور عورتوںپہ مشتمل ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جس میں احمقوں اور کرپٹ لوگوں کی شمولیت بالکل ممنوع ہو اور انہیں صاف صاف کہہ دیا جائے کہ وہ پہلے جا کر اس ملک کے غریب عوام کے لئے کچھ کر کے دکھائیں۔ہمیں علم ہے کہ ایسی باتیں صرف کہنا آسان ہوتی ہیں اور ان کا کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ تاہم یہ کرگزرنا نا ممکن بالکل بھی نہیں۔ اگر مناسب طور سے کیا جائے تو یہ ممکن ہے۔یہاں ہم خان صاحب کے ایک دیرینہ وفادار کا ذکر کرنا چاہیں گے۔ نعیم الحق صاحب کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں خان صاحب کے ساتھ رہے ہیں۔انہوں نے کبھی خان صاحب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کے احکامات اور ان کی ہدایات پہ عمل ہی کیا ہے۔وہ ایک ذہین انسان ہیں۔ بیرون ملک بینکاری کے شعبے میں ان کا ایک نہایت ہی کامیاب کیرئیر تھا اور بعد میں وہ ایک ٹی وی چینل پہ اینکر بھی رہے جہاں ان کا ہر تجزیہ سننے کے لائق تھا۔جب ان کی اہلیہ کو سرطان کا مرض لاحق ہوا تو انہوں نے ان کی بڑی خدمت بھی کی تھی۔ان کی اہلیہ نازلی جمیل مری کے کانونٹ میں ہماری ہم جماعت تھیں۔ ہم جب بھی وہاں کے بورڈنگ ہائوس سے پریشان ہو کر، گھبرا کر اور اکتا کر وہاں سے نکلنے کی سوچتے تونازلی جمیل ہی ہمیں تسلی دیا کرتی تھیں۔وہ بہت ہی خوش مزاج، ذہین اور خود اعتمادی سے بھرپور تھیں۔ ہم دل ہی دل میں یہ چاہتے تھے کہ کاش ہم بھی ان کی طرح ہو جائیں۔بعد میں ان کی شادی نعیم الحق سے ہوئی اور چند سال قبل ہی وہ سرطان میں مبتلا ہو کر فوت ہوئی ہیں۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور آصف زرداری کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اہم عہدوں پہ غلط تقرریاں کی تھیں۔پاکستان کے مرد اول کی حیثیت میں آصف زرداری نے تمام مالیاتی و ترقیاتی اداروں کے سربراہوں کی تقرریاں خود کی تھیں اور یہ لوگ پھر انہی کی ہدایات کے تحت کام کرتے تھے جو انہیں ہر رات موصول ہوا کرتی تھیں۔ ہمیں ہمارے ایک معتبر ذریعے نے بتایا ہے کہ زرداری صاحب کو پکڑا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تمام نشانیاں بڑی خوبصورتی سے صاف کر دیتے ہیں۔قومیائے گئے تمام بینکوں کے صدور کی تقرری انہوں نے ہی کی تھی اوروہی ان سب کو کنٹرول کرتے تھے۔ یہ لوگ ان کے سامنے چوں تک نہیں کر سکتے تھے۔اسی لئے تو زرداری صاحب کو گاڈ فادر کا خطاب بھی ملا۔میاں نواز شریف نے بھی اپنے تینوں ادوار میں اہم عہدوں پہ من پسند لوگوں کی تقرریوں کے لئے ہر قاعدے اور ضابطے کو پامال کیا۔اقرباء پروری اور دوست نوازی پہ بغیر کسی شرم کے وہ کھلم کھلا عمل کرتے رہے۔ پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام کی سربراہی انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سونپی تھی۔ عدالت نے جب اس تقرری کے خلاف فیصلہ دیا تو مریم نواز کو وہ عہدہ چھوڑنا ہی پڑا۔جب اقرباء پروری اور دوست نوازی کی بنیاد پہ نا اہل افراد کی تقرریاں ہوں تو اس کے انتظامی و انضباطی نوعیت کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک سرکاری ادارہ چاہے خسارے میں جا رہا ہو یا منافع کمارہا ہو اور زیادہ محصولات کی تلاش میں ہو تو اگر اس کے کلیدی عہدوں پہ نون لیگ سے وفاداری کی بنیاد پہ تقرریاں کی جائیں تو عین ممکن ہے کہ عوامی مفاد اور نون لیگ کا جماعتی مفاد باہم متصادم ہوںاور ایسی صورتحال میں مقرر شدہ عہدیدار عوامی مفاد کی بجائے نون لیگ کے جماعتی مفاد کو ہی مقدم سمجھے گا۔دوسری طرف انضباطی پہلو سے متعلقہ مسئلہ تو مزید گہرائی کا حامل ہے۔ جب ایسے ایک ادارے میں کلیدی تقرری ہی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی ہو تو ایسا شخص پھر عوامی مفاد کا تحفظ کس طرح قواعد و ضوابط کے مطابق کر سکے گا؟ عمران خان شریفوں، بھٹوئوں اور زرداریوں کی کرپشن سے اچھی طرح باخبر ہیں۔کئی برس سے وہ ٹی وی چینلوں پہ ان کے خلاف بولتے آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اب جبکہ ان کی باری آئی ہے تو وہ ان ساری باتوں کو ذہن میں مستحضر رکھیں گے۔ تاہم عورتوں کی طاقت کو نظر انداز نہ کریں، خان صاحب! انہیںخدمت کا ایک موقع دیجئے !