غالباً غالب نے ایسے ہی کہا تھا: در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسے پھر گیا جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا خان صاحب ! آپ کر کیا رہے ہیں! یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ آپ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں دوسرے لفظوں میں آپ داہنا دکھا کر بایاں دائو مار رہے ہیں۔ یہ سپورٹس مین سپرٹ کے خلاف ہے۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ پہلے ہم نے اخباروں میں پڑھا کہ آپ نے بجلی کے نرخ دو روپے فی یونٹ بڑھا دیے اور گیس47فیصد بڑھا دی۔ اب آپ نے فواد چودھری کو سامنے لاتے ہوئے اعلان کروا دیا کہ نہ تو بجلی کے نرخ بڑھے ہیں اور نہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ سراسر روندی ہے اور فائول ہے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کہ جن کالم نگاروں نے گرم گرم کالم باندھے تھے اور آپ کی حکومت کے پرخچے اڑائے تھے اور باقاعدہ حساب کتاب لگا کر عوام کو بتایا تھا کہ وہ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں کہ بجلی کے بل یوں بڑھیں گے کہ دس ہزار والا 15ہزار ہو جائے گا اور گیس کے بھی اچھے خاصے بڑھ جائیں گے پھر اسی بنیاد پر دوسری اشیائے صرف بھی مہنگی ہونگی۔ ان تجزیہ نگاروں کی کیفیت کیا ہو گی جو بجلی اور گیس پر اپنی قیمتی آرا پیش کر رہے تھے اور عوام کو مایوسی سے ہمکنار فرما رہے تھے۔ خان صاحب یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ اگر آپ نے یہ قدم اٹھا ہی لیا تھا تو پھر اس پر قائم رہتے۔ اس طرح تو لوگوں کا آپ پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ خاص طور پر کالم نگاروں کا تو آپ نے وقت ضائع کیا اور ان کی توانائی بھی: ’’یعنی خواب تھا۔جو کچھ کہ دیکھا‘ جو سنا افسانہ تھا۔ خوامخواہ لوگوں کو بھی آپ نے اذیت میں رکھا کہ وہ آنے والی قیمتوں کا سوچ سوچ کر بے حال ہوتے رہے۔ خان صاحب آپ ان کے ساتھ ایسا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔ شاید آپ اسے بھی کرکٹ کی طرح لے رہے ہیں۔ جس میں بائولر وکٹیں اڑا کر لڈیاں ڈالتا ہے مگر اگلے ہی لمحے وہ مڑ کر دیکھتا ہے تو امپائر اس کے بال کو نوبال قرار دے چکا ہوتا ہے اور اس پر بلے باز کو فری ہٹ بھی مل جاتی ہے۔ ن لیگ کے حق میں لکھنے والے کالم نگار تو خاص طور پر ایسی ہی کیفیت میں ہیں۔ لگتا ہے کہ آپ نے اپنے ناقدین کو کھلا دھوکہ دیا ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ آخر یہ خبریں کیسے لیک ہوئیں کہ بجلی کی قیمتوں میں دو روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 47فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے کہیں ایسا تو نہیں آپ نے یہ feelerکے طور پر پتہ پھینکا ہو کہ لوگوں کا ردعمل دیکھیں ۔ یا پھر آپ نے یہ کوئی نفسیاتی کھیل کھیلا کہ لوگوں کو پہلے پریشان کریں اور پھر خوش کریں‘ اس طرح خوشی دوگنا ہو جاتی ہے میرا خیال ہے کہ اس طرح کے حربوں سے خان صاحب اپنے مخالفین کو زچ کر رہے ہیں اس سے پہلے لوگ ڈیم کے حوالے سے بہت گرد اڑا چکے ہیں۔ اور اس عمل کو خیرات قرار دے رہے ہیں۔ لیکن تمام تر حربے استعمال کر نے کے باوجود لوگ چندہ دے رہے ہیں۔ باہر سے لوگ لاکھوں ڈالر لا رہے ہیں۔ جوں جوں پیسے آ رہے ہیں مخالفین کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ آ رہا ہے ‘ جا تو نہیں رہا۔ مخالفین خان کے اقدامات کامیڈی ڈرامے کہہ رہے ہیں مگر یہ کامیڈی ڈرامے دشمنوں کے لیے ٹریجیڈی ثابت ہونگے۔ ریکوری یونٹ کا قیام بھی اسی کا ایک حصہ ہے۔ خان صاحب کی طرف سے ایک اور وضاحت بھی آ گئی ہے کہ تنخواہ دار طبقے کو تنگ نہیں کیا جائے گا۔ ان پر ٹیکس کی شرح نہیں بڑھائی جائے گی۔ میرے معزز قارئین یہ تو آپ کو یاد ہو گا کہ میاں صاحب کے عہد میں ملازمین کو ذاتی ملازم سمجھا جاتا تھا۔ اورتو اور ان کے جی پی فنڈ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا حالانکہ جی پی فنڈ خالصتاً ملازم کے اپنے پیسے ہوتے ہیں جو حکومت پس انداز کر کے یعنی اس کی تنخواہ سے کاٹ کاٹ کر جمع ہوتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ پر اس کے کام آ سکیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پچھلی حکومت کے ڈار ڈرئیکولا نے وڈ ہولڈنگ ٹیکس لگا کر سیدھا سیدھا ڈاکہ مارا جس کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی بہانہ۔ خدا کرے کہ عمران خاں اس ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کر سکے۔ ناصر کاظمی سے معذرت کے ساتھ: ڈار صاحب کا مشغلہ تھا یہ جس کو دیکھا اسی کو لوٹ لیا ہائے ہائے میں نے ناصر کاظمی کے خوبصورت شہر کا حشر کر دیا۔ آپ ان کا رومانٹنگ شعر بھی پڑھ ہی لیں: چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا ایک مرتبہ میں نے یہ شعر ایک محفل میں پڑھا تو ایک نقاد صاحب کہنے لگے ’’شاہ جی یہ بھی کوئی شعر ہے۔ کیا سامنے گدھا ہو تو اس کو بھی شاعر چوم لے گا‘‘ میں نے برجستہ کہا’’آپ وہاں نہیں تھے‘‘ بس ہوتا ہے بعض لوگوں سے خوبصورت چیز دیکھی نہیں جاتی‘ انہیں فوراً نزلہ ہو جاتا ہے یا کھانسی آ جاتی ہے۔ ہاں آخر میں مجھے تازہ ترین فیصلے کی سمجھ نہیں آئی کہ چاروں گورنر ہائوسز کو میوزیم میں بدل دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کو یونیورسٹی بنانے والا اعلان تو بہت درست ہے۔مگر میوزیم والی بات کچھ کھلتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں ویسٹ والے میوزیم ہوں کہ جس میں لائبریری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اس لیے اس پر فی الحال بات نہیں ہو سکتی۔ اگر تو یہ عجائب گھر ہمارے والے ہیں تو پھر یہ اچھا فیصلہ نہیں۔ ایک عجائب گھر ہی بہت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان گورنر ہائوسز کو ریسرچ سنٹرز بنا دیا جاتا تو زیادہ اچھا تھا۔ مثلاً پنجاب کا گورنر ہائوس خاصہ کشادہ ہے۔ یہ زرعی سنٹر بن سکتا ہے۔ اس پر کاشت کے کئی تجربے ہو سکتے ہیں۔ اس کا کمرشل استعمال بھی ہو سکتا ہے ان ساری باتوں سے زیادہ اہم بات اداروں کو مضبوط بنانا ہے اور سب سے پہلے پولیس کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے ان کی کارکردگی ہمیشہ سے منفی ہی رہی ہے۔ جو بھی ہے خان صاحب کے لیے دعا گو ہیں کہ وہ تبدیلی لائیں اور ایسی تبدیلی لائیں کہ غریبوں کا فائدہ ہو۔ ان موٹی موٹی گردنوں کو ضرور ٹیکس کے شکنجے میں لائیں جن کو کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ آخر میں ایک شعر: کربلا کربلا بھی کرتے ہو اور ڈرتے ہو تیر کھانے سے