ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو صبر سے بڑی دولت دنیا میں کوئی نہیں۔ یہ ویسے بھی سو مصیبتوں کا علاج ہے۔ قناعت کا وصف اسی کی ذیل میں آتا ہے۔ ریاضت بھی اسی کی تفصیل ہے۔ ملا نصیرالدین نے اپنے گدھے پر اسی قسم کا ایک تجربہ کیا تھا کہ اسے بارہ دن بھوکا رکھا اور تیرہویں دن وہ بے زبان چل بسا۔ دوستوں نے ملا سے کہا کہ اس نے اپنے گدھے پر ظلم کیا تو ملا نے جواب دیا۔ کونسا ظلم گدھے ہی نے ساتھ دیا اور اس کاتجربہ ناکام ہو گیا۔ وہ تو تجربہ کر رہا تھا کہ گدھا بغیر چارے کے کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے۔گدھا ہمت ہار آگیا۔ بہرحال جو بھی ہے ہمت مرداں مدد خدا۔ لوگ ہی بے صبرے اور کم ہمت ہیں‘ وگرنہ عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک حوصلہ مند لیڈر ہیں اور وہ کسی بھی ناکامی پر گھبراتے نہیں۔ آئے روز وہ نئی نئی ناکامیاں خود کو ٹیسٹ کرنے کیلئے برداشت کرتے ہیں اور اسی قسم کی توقع وہ عوام سے رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیا جائے۔ وہ جب سے آئے ہیں اسی روش پر کاربند ہیں۔ کمال یہ کہ وہ ہر صورت حال میں شرمیلی سے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات تو دشمنوں کے لیے کہی تھی کہ بہت رلائوں گا: ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا اب دیکھئے ناں خان صاحب مافیاز سے لڑ رہے ہیں۔ جب آپ بھڑوں کے چھتے پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ بھڑیں کاٹتی تو ہیں بلکہ ان کو زیادہ کاٹتی ہیں جو قریب کھڑے ہوتے ہیں یا گزر رہے ہوتے ہیں۔ آپ خان صاحب کو ان کی ہمت کی داد تو دیں کہ وہ ہر قسم کے بحران کا نوٹس لیتے ہیں اور پھر جن کا نوٹس لیتے ہیں وہ بھی جواباً نوٹس لیتے ہیں۔ حکومت اور مافیاز کی لڑائی اصل میں ہاتھیوں کی لڑائی کی طرح ہے جس میں عوام فصلوں کی طرح پامال ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فطری بات ہے۔ اس کے لیے عوام کو سب کچھ برداشت کرنا ہوگا۔ آپ یہ تو دیکھیں کہ خان صاحب کی نیت کتنی نیک ہوتی ہے اور انہیں اس پامالی پر دکھ بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سب مافیا کی وکٹیں اڑا دیں گے۔ لوگ اس کا انتظار کریں۔ بس گھبرائیں بالکل نہیں۔ ایک تو لوگ شک بہت کرتے ہیں‘ بدگمانی کرتے ہیں۔ اب دیکھیں خان صاحب نے پٹرول سستا کیا تو پٹرول مافیا نے پٹرول غائب کردیا۔ اکثر لوگوں کو پٹرول 200 روپے فی لٹر بلیک میں ملنے لگا۔ خان صاحب نے ان کی بیک میلنگ پر ضرب لگائی اور پٹرول 25 روپے مہنگاکر کے انہیں پٹرول 100 روپے فی لٹر کے حساب سے بیچنے پر مجبور کر دیا۔ دیکھئے کیسے چال چلی۔ اب کچھ مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے مافیا کو سستا پٹرول خرید کر ذخیرہ کرنے کا موقع دیا اور جب سٹور اور فلو ہوا تو پٹرول مہنگا کردیا۔ کچھ اسی قسم کی باتیں لوگ چینی اور آٹے کے بارے میں کرتے ہیں۔ اب دیکھئے ناں خان صاحب نے اپنے دوست جہانگیر ترین کی دوستی کی بھی پروا نہیں کی اور رپورٹ عام کردی اور ترین اپنے بیٹے سمیت ملک سے چلے گئے۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان لوگوں کوساتھ رکھ کر انہیں ایک بڑی خرابی کرنے سے خان صاحب نے روکا۔ ان کی سازش کو ناکام بنانا کچھ آسان نہ تھا۔ عوام کو خان صاحب کا احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر وہ درمیان میں نہ ہوتے تو پٹرول 25 روپے کی بجائے 41 روپے فی لٹر مہنگا ہوتا۔ ابھی بھی کچھ بدخواہ پٹرول مزید مہنگا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ کہ بعض اوقات کچھ فیصلوں کا خان صاحب کوبھی معلوم نہیں ہوتا اور وہ اس نظر انداز کرنے پربھی صبر کرتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں۔ عوام کے ردعمل کو خود پر برداشت کرتے ہیں۔ وہ سب کچھ عوام کی محبت میں کئے جاتے ہیں: تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے کچھ کام اسی محبت میں کرنا پڑتے ہیں اور اس کا سبب عوام سے بھی چھپانا پڑتا ہے۔ مثلاً اب دیکھئے انہوں نے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت للکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں مندر بنانے کا علان ہے۔ اب ردعمل تو خان صاحب کے خلاف آ رہا ہے اور اس ردعمل کو خان صاحب خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔ یہ ایک لیڈر ہی کرسکتا ہے کہ وہ گھبراتا نہیں ہے۔ لیڈر کو کئی نا قبول فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً یہ جو تنخواہوں کا نہ بڑھانا ہے یہ مشکل ترین فیصلہ ہے۔ لوگوں کو مشکل ترین حالات میں زندہ رہنے کاتجربہ کرنا ہے۔ آگے آگے مشکل وقت آ رہے ہیں اور خان صاحب پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ چین تو صرف مرنے کے بعد ہی ملے گا۔ عظیم لوگ مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں‘ اپنا آپ مٹا دیتے ہیں۔ یہ درویشوں کی صفت ہے۔ خیر جو بھی ہے ڈاکٹر عمر اصغر یزدانی نے شرارت سے خان صاحب کیلئے فراق گورکھ پوری کا شعر بھیجا ہے: ہم سے کیا ہو سکا محبت میں تم نے تو خیر بے وفائی کی مجھے اس پر معاً مومن خان مومن کا شعر یاد آ گیا۔ غالباً وہ زیادہ کفایت کرے گا۔ وہ زیادہ حسب حال ہوگا: میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی اور نہ جانے یہاں سے دھیان ریحام خان کی طرف بھی چلا گیا کہ ’’ہم کو تو شدت احساس نے رونے نہ دیا۔ جانے کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا۔‘‘ شاید میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں کہ شعر میری مجبوری ہے۔ شعر آ جائے تو میں بھٹک جاتا ہوں۔ اب مومن کا تذکرہ شروع ہوا تو نہ جانے کیوں دل چاہتا ہے کہ آخر میں خان صاحب کے لیے مومن ہی کی غزل کے دو اشعار پیش کردیتا ہوں۔ اگر ان کی سمجھ میں نہ آئیں تو فیاض چوہان سے سمجھ لیں۔ شبلی فراز کو زحمت نہ دیں: میں نے تم کو دل دیا تم نے مجھے رسوا کیا میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا روز کہتا تھا کہیں مرتا نہیں ہم مر گئے اب تو خوش ہو بے وفا تیرا ہی لے کہنا کیا
خان صاحب کے دفاع میں
پیر 29 جون 2020ء
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم کی پشیمانی کو کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو صبر سے بڑی دولت دنیا میں کوئی نہیں۔ یہ ویسے بھی سو مصیبتوں کا علاج ہے۔ قناعت کا وصف اسی کی ذیل میں آتا ہے۔ ریاضت بھی اسی کی تفصیل ہے۔ ملا نصیرالدین نے اپنے گدھے پر اسی قسم کا ایک تجربہ کیا تھا کہ اسے بارہ دن بھوکا رکھا اور تیرہویں دن وہ بے زبان چل بسا۔ دوستوں نے ملا سے کہا کہ اس نے اپنے گدھے پر ظلم کیا تو ملا نے جواب دیا۔ کونسا ظلم گدھے ہی نے ساتھ دیا اور اس کاتجربہ ناکام ہو گیا۔ وہ تو تجربہ کر رہا تھا کہ گدھا بغیر چارے کے کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے۔گدھا ہمت ہار آگیا۔ بہرحال جو بھی ہے ہمت مرداں مدد خدا۔ لوگ ہی بے صبرے اور کم ہمت ہیں‘ وگرنہ عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ایک حوصلہ مند لیڈر ہیں اور وہ کسی بھی ناکامی پر گھبراتے نہیں۔ آئے روز وہ نئی نئی ناکامیاں خود کو ٹیسٹ کرنے کیلئے برداشت کرتے ہیں اور اسی قسم کی توقع وہ عوام سے رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیا جائے۔ وہ جب سے آئے ہیں اسی روش پر کاربند ہیں۔ کمال یہ کہ وہ ہر صورت حال میں شرمیلی سے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات تو دشمنوں کے لیے کہی تھی کہ بہت رلائوں گا: ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا اب دیکھئے ناں خان صاحب مافیاز سے لڑ رہے ہیں۔ جب آپ بھڑوں کے چھتے پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو وہ بھڑیں کاٹتی تو ہیں بلکہ ان کو زیادہ کاٹتی ہیں جو قریب کھڑے ہوتے ہیں یا گزر رہے ہوتے ہیں۔ آپ خان صاحب کو ان کی ہمت کی داد تو دیں کہ وہ ہر قسم کے بحران کا نوٹس لیتے ہیں اور پھر جن کا نوٹس لیتے ہیں وہ بھی جواباً نوٹس لیتے ہیں۔ حکومت اور مافیاز کی لڑائی اصل میں ہاتھیوں کی لڑائی کی طرح ہے جس میں عوام فصلوں کی طرح پامال ہوتے ہیں۔ یعنی یہ فطری بات ہے۔ اس کے لیے عوام کو سب کچھ برداشت کرنا ہوگا۔ آپ یہ تو دیکھیں کہ خان صاحب کی نیت کتنی نیک ہوتی ہے اور انہیں اس پامالی پر دکھ بھی ہوتا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سب مافیا کی وکٹیں اڑا دیں گے۔ لوگ اس کا انتظار کریں۔ بس گھبرائیں بالکل نہیں۔ ایک تو لوگ شک بہت کرتے ہیں‘ بدگمانی کرتے ہیں۔ اب دیکھیں خان صاحب نے پٹرول سستا کیا تو پٹرول مافیا نے پٹرول غائب کردیا۔ اکثر لوگوں کو پٹرول 200 روپے فی لٹر بلیک میں ملنے لگا۔ خان صاحب نے ان کی بیک میلنگ پر ضرب لگائی اور پٹرول 25 روپے مہنگاکر کے انہیں پٹرول 100 روپے فی لٹر کے حساب سے بیچنے پر مجبور کر دیا۔ دیکھئے کیسے چال چلی۔ اب کچھ مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے مافیا کو سستا پٹرول خرید کر ذخیرہ کرنے کا موقع دیا اور جب سٹور اور فلو ہوا تو پٹرول مہنگا کردیا۔ کچھ اسی قسم کی باتیں لوگ چینی اور آٹے کے بارے میں کرتے ہیں۔ اب دیکھئے ناں خان صاحب نے اپنے دوست جہانگیر ترین کی دوستی کی بھی پروا نہیں کی اور رپورٹ عام کردی اور ترین اپنے بیٹے سمیت ملک سے چلے گئے۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان لوگوں کوساتھ رکھ کر انہیں ایک بڑی خرابی کرنے سے خان صاحب نے روکا۔ ان کی سازش کو ناکام بنانا کچھ آسان نہ تھا۔ عوام کو خان صاحب کا احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ عوام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر وہ درمیان میں نہ ہوتے تو پٹرول 25 روپے کی بجائے 41 روپے فی لٹر مہنگا ہوتا۔ ابھی بھی کچھ بدخواہ پٹرول مزید مہنگا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ کہ بعض اوقات کچھ فیصلوں کا خان صاحب کوبھی معلوم نہیں ہوتا اور وہ اس نظر انداز کرنے پربھی صبر کرتے ہیں اور گھبراتے نہیں ہیں۔ عوام کے ردعمل کو خود پر برداشت کرتے ہیں۔ وہ سب کچھ عوام کی محبت میں کئے جاتے ہیں: تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے کچھ کام اسی محبت میں کرنا پڑتے ہیں اور اس کا سبب عوام سے بھی چھپانا پڑتا ہے۔ مثلاً اب دیکھئے انہوں نے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت للکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں مندر بنانے کا علان ہے۔ اب ردعمل تو خان صاحب کے خلاف آ رہا ہے اور اس ردعمل کو خان صاحب خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔ یہ ایک لیڈر ہی کرسکتا ہے کہ وہ گھبراتا نہیں ہے۔ لیڈر کو کئی نا قبول فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ مثلاً یہ جو تنخواہوں کا نہ بڑھانا ہے یہ مشکل ترین فیصلہ ہے۔ لوگوں کو مشکل ترین حالات میں زندہ رہنے کاتجربہ کرنا ہے۔ آگے آگے مشکل وقت آ رہے ہیں اور خان صاحب پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ چین تو صرف مرنے کے بعد ہی ملے گا۔ عظیم لوگ مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں‘ اپنا آپ مٹا دیتے ہیں۔ یہ درویشوں کی صفت ہے۔ خیر جو بھی ہے ڈاکٹر عمر اصغر یزدانی نے شرارت سے خان صاحب کیلئے فراق گورکھ پوری کا شعر بھیجا ہے: ہم سے کیا ہو سکا محبت میں تم نے تو خیر بے وفائی کی مجھے اس پر معاً مومن خان مومن کا شعر یاد آ گیا۔ غالباً وہ زیادہ کفایت کرے گا۔ وہ زیادہ حسب حال ہوگا: میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی اور نہ جانے یہاں سے دھیان ریحام خان کی طرف بھی چلا گیا کہ ’’ہم کو تو شدت احساس نے رونے نہ دیا۔ جانے کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا۔‘‘ شاید میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں کہ شعر میری مجبوری ہے۔ شعر آ جائے تو میں بھٹک جاتا ہوں۔ اب مومن کا تذکرہ شروع ہوا تو نہ جانے کیوں دل چاہتا ہے کہ آخر میں خان صاحب کے لیے مومن ہی کی غزل کے دو اشعار پیش کردیتا ہوں۔ اگر ان کی سمجھ میں نہ آئیں تو فیاض چوہان سے سمجھ لیں۔ شبلی فراز کو زحمت نہ دیں: میں نے تم کو دل دیا تم نے مجھے رسوا کیا میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا روز کہتا تھا کہیں مرتا نہیں ہم مر گئے اب تو خوش ہو بے وفا تیرا ہی لے کہنا کیا
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں پیر 29 جون 2020ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں