سب سے پہلے اپنے قارئین کے لئے تین تازہ ترین اشعار جس پہ جتنا تھا اعتبار کیا اس نے اتنا ہی ہم کو خوار کیا ایک سودائے رسم رسوائی لوگ کہتے ہیں ہم نے پیار کیا اب دھڑکنا بھی اس نے چھوڑ دیا دل نے جا کر کہاں قرار کیا اب شاعر کیا کرے کہ اپنی بپتا کو سخن آشنا ہی کر سکتا ہے وہ تو داغ نے بھی کہا تھا’’غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا‘‘ اعتبار کا اپنا ایک موسم ہوتا ہے، جہاں بندے کی مت ہی ماری جاتی ہے یا پھر وہ اپنی جبلت کے ہاتھوں تنگ ہوتا ہے۔ محبت بھی تو اس سے ملتا جلتا عمل ہے جہاں سب کچھ غیر مشروط ہوتا ہے۔ اس میں تو بعض اوقات شدت اورجدت بھی آ جاتی ہے یعنی رومانس بھی وہ کچھ ہوتا ہے جو سودوزیاں سے ماورا ہوتا ہے: محبت ہی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ جیت لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے محبت مار دیتی ہے‘محبت مار دیتی ہے گویا کہ ہم تو محبت کے مارے ہوئے ہیں کہاں سیف صاحب یاد آ گئے ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا۔ رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا۔ آمدم برسر مطلب عمران خان کا پیچ و تاب کھانا بنتا ہے مگر اس بے چینی اور غصے کا اظہار وہ نہ کرتے تو اچھا ہوتا کہ پھر وہی پرانا محاورہ لکھنا پڑے گا کہ سانپ تو نکل گیا لکیر پیٹنے کا اب فائدہ۔ یا پھر کیا پچھتائے ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب آپ عملی سیاست کی طرف آئیں۔ نواز شریف کی بیماری بارے آپ کی تشویش اورشک درست نہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لوگ تو یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ یہ کام سب نے مل جل کر انجام دیا ہے کہ یہ اکیلے آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اب سب ہوا میں تلواریں چلا رہے ہیں نواز شریف نے بہرحال اچھا نہیں کیا کہ بندہ تھوڑا بہت خیال ہی کر لیتا ہے کہ جو تاثر ڈاکٹروں اور ان کے عزیزوں نے دیا تھا ان کا ہی ذرا خیال کر لیتے: تھوڑی سی وضعداری تو اس دل کے واسطے تونے تو اس میں وہم بھی پلنے نہیں دیا ایک حساب تے تو اچھا کیا کہ انہوں نے کسی کو مغالطے میں نہیں رکھا وہ بڑی سج دھج سے سوئے لندن عازم سفر ہوئے۔ یہ ایک لیڈر کی شان ہے کہ اس نے اپنی بیماری کا تاثر ہی نہیں دیا یا پھر یہ کہ دشمنوں کو چڑا کر یا ٹھینگا دکھانے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ ’’وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘‘ ویسے تو کیا ڈاکٹر اور کیا چودھری برادران۔ دونوں نے خاک ڈال دی دیدہ امتیاز میں‘ ویسے شیف گلزار نے زیادہ دانشمندانہ ردعمل دیا کہ اس نے نواز شریف کی روانگی پر ذومعنی احتجاج کیا کہ خوشی میں اپنے ہی سر میں جوتے مارے اور کہا کہ اب غریب آدمی کو بھی ریلیف دینے کا سوچیں، جبکہ غریب آدمی کے لئے تو کھانے کو گاجریں بھی نہیں رہیں۔ اس نے تمام اداروں کو مبارکباد دی کہ جان چھٹی سو لاکھوں پائے ہماری مشینری اس کام پر لگی ہوئی تھی جیسے کہ وہ سچ مچ کا شیر پکڑ بیٹھے ہیں یا پھر وہ غلطی سے شیر پر سواری کر بیٹھے ہیں اور اب انہیں اتارنے والا کوئی نہیں۔ میری یہ باتیں حکایت لگتی ہیں مگر یہ حقیقت ہے۔ اور تو اور عدلیہ نے بھی انگڑائی لی کہ اپنا حصہ تو تھوڑا بہت اس نے بھی ڈالا۔ یہ سچ ہے تو ایک سچ یہ بھی ہے کہ خان کو چلنے ہی نہیں دیا گیا خاص طور پر بیورو کریسی جو کہ نظام کی کلید ہے اس تالے میں فٹ ہی نہیں آتی جو خاں کے پاس تھا۔ جونہی تبدیلی آئی سرکار بھی تبدیل ہو گئے۔ محکموں نے بالکل ہی تعاون نہیں کیا۔ خان کے پاس وہ ٹیم ہی نہیں تھی کہ جو شہباز شریف کی طرح محکموں میں دراندازی کر کے حالات کا جائزہ لیتی۔ ان کے پاس تو مسخرے قسم کے لوگ تھے جو گالیاں اور طعنے دیتے رہے۔ خان صاحب درست فرما رہے ہونگے کہ وہ کرسی بچانے نہیں آئے تبدیلی لانے آئے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ضرور تھے مگر وہ انتظار نہ کر سکے۔ جب بندہ خود نہ آئے تو پھر اس کے پاس انتخاب بھی نہیں ہوتا۔ ان کو جو سہارے تھے وہ کسی اور کے سہارے کھڑے تھے۔ دنیا خان کے پیچھے دیوانی تھی کہ اس کے پاس دیانتداری کا کرزمہ تھا اس کو ٹریپ کر کے کرگسوں کے درمیان چھوڑدیا گیا ہائے ہائے مگر یہ تو پلا پلایا شاہین تھی۔ اقبال نے تو اشارہ اور طرف کیا تھا: وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گیسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی اس نظام کے سب کل پرزے اسی نظام کی گریس پر چلیں گے مہنگائی روز افزوں ہے اور اس وقت 13.25فیصد بڑھ چکی ہے۔ ڈالر کے بارے میں خود ہی وزیر اعظم ارشاد فرما چکے ہیں کہ وہ کہیں بھی جا سکتا ہے۔ پھر حکومتوں کی جان تو معیشت میں ہوتی ہے کہ امن و امان تو پولیس وغیرہ پر ڈالا جاسکتا ہے کچھ یوں بھی ہے کہ ’’غریباں رکھے روزے تے دن وڈے آئے‘‘ آفات نے بھی ہمیں آن لیا ہے۔ ڈینگی نے خوفزدہ کر رکھا ہے کہیں کتے لوگوں کو کاٹ رہے ہیں اور دوائیاں اور علاج معالجہ عام آدمی کے پہنچ میں نہیں رہا۔ پنجاب کا تو زیادہ ہی برا حال ہے لے دے کے ایک بزدار صاحب ہیں جن کا ایک آدھ بیان اخبار پر چڑھا دیا جاتا ہے انہوں نے اپنے اختیارات پہلی مرتبہ استعمال کئے ہیں اور سموگ پر سکول کالج بند کروا دیے ہیں: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے ایک پہلوان کے نکل جانے کے بعد اب دوسرا پہلوان بھی دائو لگانے پر لگا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی سامنے آ گئی ہے کہ عمران ذہنی مریض ہیں نفرت انگیز تقریر پر مقدمہ بننا چاہیے اور یہ کہ وزیر اعظم کا کام نقلیں اتارنا نہیں ویسے تو نقل اتارنا خوبی ہے اور جس شخص کی نقل اتاری جاتی ہے وہ یقینا مرتبے میں اور اہمیت میں نقل اتارنے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ بلاول کو تو خوش ہونا چاہیے۔ جو بھی ہے خان صاحب بھڑوں کے کھکھڑ کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔ زیادہ محاذ کھولنے کا یہی نقصان ہوتا ہے۔ دھرنے کے دنوں میں خان صاحب خاموش رہے تو یہ دانشمندی اور سمجھداری کی بات تھی ردعمل انہیں مولانا فضل الرحمن کے برابرلے آیا اور اس کے بعد وہ بلاول کے برابر آن کھڑے ہوئے۔ دشمن تو ایک مسکراہٹ کی مار ہوتاہے۔ کشمیر کے بارے میں بھی حکومت کی خاموشی انہیں مشکوک بنا رہی ہے۔ اب تو نہ دھرنا ہے اور نہ نواز شریف اور زرداری بھی آج گئے یا کل ۔ خاں صاحب کو پوری توجہ ڈلیور کرنے پر دینی چاہیے ڈلیور کیا کرنا ہے یہ تو ان کی ثواب دید پر ہے عوام کو کسی پل سکون کا سانس آئے اب تک تو یہی ثابت ہوا ہے کہ یہ ڈاکو چور آپ کے بس میں نہیں ہیں تو پھر آپ عوام کے لئے ہی کچھ کریں اور نہیں تو ان کی دل جوئی ہی کریں آپ کو تو اتحادی اور فسادی کا فرق بھی معلوم نہیں کچھ نہ کچھ کر لیں کہ آپ عوام کے سامنے جا سکیں۔ وگرنہ دیر ہو جائے گی۔