’’وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے دماغ ایک ہی جیسے ہیں‘‘ ۔خدا خیر کرے۔سدابہار سیاستداں وزیر ریلوے شیخ رشید کے اس جملے نے بڑا مزہ دیا۔پیر کی شب اسکرین پر امریکی صدر اور وزیراعظم عمران خان پہلو بہ پہلو سفارتی آداب سے ہٹ کر دونوں ملکوں کو در پیش سنگین معاملات پر انتہائی خوشگوار ماحو ل میں اوول آفس میں گفتگو کررہے تھے۔اُس سے وہ سارے خدشات اور خطرات دور ہوگئے جو شیخ صاحب سمیت ہمارے وزیر اعظم اور صدر امریکہ کے درمیان ملاقات سے پہلے تھے۔ادھر ایک تو سفارتی آداب سے ناآشنا ،منہ پھٹ اور وہ بھی سپر پاور کا ڈونلڈ ٹرمپ ۔۔۔ اِدھر ہمارے غیر روایتی ،سیاستداں کم کرکٹ کپتان، عمران خان کہ مصلحت اور چاپلوسی جن کے پاس سے بھی نہیں گذری ۔ اس ملاقات او رو زیر اعظم عمران خان کے تین روزہ دورۂ امریکہ پر تبصرے اور تجزئیے کی کم ہی گنجائش رہ جاتی ہے۔لیکن وزیر اعظم عمران خان سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ کا یہ انکشاف کہ بھارتی صدر نریندر مودی نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ مسئلہ ٔ کشمیر کے حل میں ان سے تعاون کریں ۔۔۔۔یقینا ایک بہت بڑا breakthrough ہے۔بھارت کی وزارت خارجہ کے بابو کتنا ہی واویلا کریں ،امریکہ جیسی سپر پاور کا صدر کم از کم برصغیر پاک و ہند کے حوالے سے اتنے حساس موضوع پر مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے سکتا۔پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ صدر مودی اپنی تمام تر انتہاپسندی اور مسلم دشمنی کے بعد اپنے پانچ سالہ دور ِ اقتدار میں یہ ضرور جان چکے ہیں کہ کشمیر ایک ایسا رِستا ناسور ہے جو بتدریج بھارتی دفاعی معیشت پر ایک بڑا بوجھ بن گیا ہے۔چھ لاکھ فوجیوں کا مستقل ایک مزاحمتی ریاست میں نصف صدی سے نبرد آزما رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔کشمیر کو اپنے زیر قبضہ رکھنے کے لئے بھارت کو جانی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے اور مالی بھی ۔مسئلہ انتہائی حساس ہے ۔منہ پھاڑ کر کچھ کہنے سے گریز کروں گا۔مگر یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا پر امن حل کوئی نریندر مودی جیسا سرپھرا ہی نکال سکتا ہے۔پھر اس مسئلے کے حوالے سے امریکی صدر اور وزیر اعظم پاکستان کی فی الوقت جو کیمسٹری ملی ہے، اُس سے کیوں نہ امید رکھی جائے کہ برصغیر پاک و ہند کے اس خونی تنازعے کو یہ تینوں حکمراں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔کون سوچ سکتا تھا کہ جنوبی اور شمالی کوریا کے صدر قد م بہ قدم دوستی کی شاہراہ پر چلتے دکھائی دے سکتے ہیں۔ ۔ ۔ وزیر اعظم عمران خان اور امریکی صدر کی تاریخی ملاقات کے حوالے سے مجھے لگا کہ میںکچھ زیادہ ہی پر امید اور پر جوش ہوگیا ہوں۔کہ کہیں ایک دو ملاقاتوں سے مخاصمت اور محاذ آرائی کو اتنی جلدی پاٹا نہیں جا سکتا ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ پہلی بار واشنگٹن میں پاکستان سے ’’ڈو مور ‘‘ کی بازگشت نہیں سنائی دی۔جو 9/11کے بعد سے تو ہمارے لئے ایک چِڑ بن گئی تھی۔پہلی بات تو یہ تسلیم کر لینی چاہئے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہماری 72سالہ سیاسی تاریخ میں کبھی کوئی بہت آئیڈیل تعلقات نہیں رہے۔افغان جنگ کے دوران جو امریکہ کی مہربانیاں ہم پر رہیں ،اور جس میں ہمارے اس دور کے حکمراں خود کو بڑا کامیاب و کامران ٹھہراتے ہیں،تو آج برسہا برس سے ہم اُس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔65ہزار شہریوں کی شہادت ،ساڑھے سات ہزار فوجی جوانوں کی جان کا نذرانہ ،اور 175ارب ڈالر کا بوجھ جو اس قوم کو اٹھانا پڑا اُس نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ جس ملک میں جاتے ہیں یا جو حکمراں اس ملک میں آتا ہے ،اُس پر ایک عام آدمی کا یہی رد عمل ہوتا ہے کہ ملاقات کی میز پر کشکول ہی رکھا ہوگا۔پھر اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے کبھی ایک خوددار قوم کے سربراہ ِ مملکت کی حیثیت سے امریکی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات رکھنے کا زور نہیں دیا۔ہمارے حکمرانوں کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ پاکستانی قوم کو بیچ کر اپنے اقتدار اور مفادات کو ترجیح دی جائے۔اب تو خود امریکی حکمرانوں کی ایسی کتابیں شائع ہو چکی ہیں،جس میں بغیر کسی لگی لپٹی یہ تحریر ہے کہ کس طرح پاکستانی حکمراں واشنگٹن آکر اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے درخواست گذار ہوتے تھے۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی یادداشتوں میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ہونے والی ملاقات کا ذکر لکھتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ کارگل جنگ کے دوران وزیر اعظم پاکستان دست بستہ درخواست گذار تھے کہ انہیں بچانے کے لئے صدر کلنٹن مداخلت کریں۔امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اپنی کتاب میں بھی انتہائی تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح سابق صدر پرویز مشرف اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے این آر او میں انہوں نے کتنا اہم اور کلیدی کردار ادا کیا۔پاک امریکی تعلقات اور خاص طورپر وزیر اعظم عمران خان کے دور ہ ٔ امریکہ کا ذکر چھڑا ہے تو ذرا زیادہ تفصیل سے ماضی میںپلٹنا چاہتا تھا۔کہ امریکی دوستی ہو یا دشمنی۔نقصان اس مملکت ِ خدادادِ پاکستان اور اس سے بڑھ کر پاکستانی عوام کا ہی ہوا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اور امریکی صدر ٹرومین کے درمیان 1950ء میں جو پہلی ملاقات ہوئی ،تو واپسی پر ہمارے وزیر اعظم کے ہاتھ میں چند مونگ پھلیاں ہی تھیں۔کولڈ وار یعنی سرد جنگ کے دوران تو معذرت کیساتھ پاکستان کا کردار امریکہ کے ساتھ ایک طفیلی جیسا ہوتا تھا۔اور پھر پاکستان کا شمال مغربی صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور کے قریب بڈاپیر کے مقام پر جو امریکی اڈاموجود تھا،اُ س میں تو ایک ممتاز بیوروکریٹ روئیداد خان کے کہنے کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو داخلے تک کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔یہ وہی مشہور زمانہ بڈاپیر ہے جہاں سے اڑنے والے جاسوسی جہاز یو ٹو کو سوویت یونین نے مار گرایا تھا۔اور جس کے بعد روسی صدر خروشیف نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران جوتا اتار کر ڈیسک بجاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔ (جاری ہے)