پہلے تازہ ترین شعر: کنول کے پھول نے مجھ پر یہ آشکار کیا یہ چار سمت کی آلودگی ضروری تھی سیاست کے گند کی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ گند اور آلودگی ناگزیر ہے۔ یہ گند جب دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو دھل جاتا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہی گند جس پارٹی میں جاتا ہے اس کی متوقع جیت پر مہر ثبت کردیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس آلودگی کو دوسری سمت جانے کے لیے اشارہ یا بہانہ ہی چاہیے ہوتا ہے۔ نادیدہ ہاتھ اپنی جگہ کچھ کچھ عوامی ہوا بھی بن جاتی ہے۔ یہ جو وفاداریوں کا ذکر کیا جاتا ہے اس میں حقیقت نہیں۔ سیاست میں سب ایک دوسرے کو استعمال کر رہے ہوتے ہیں‘ پھر سب مل کر ملک کے وسائل استعمال میں لاتے ہیں‘ میرا مطلب ہے ذاتی استعمال میں۔ اب تو یہ سیدھی سیدھی سرمایہ کاری ہے کہ جہاں لگانے والے کو ملتا ہے‘ جو لوگ ڈگریاں تک خرید لیتے ہیں وہ کیا چھوڑیں گے۔ معلوم نہیں کہ اس گندگی نے سسٹم کو گندا کیا ہے یا سسٹم نے انہیں گندا کیا ہے۔ آپ انہیں غور سے دیکھیں‘ ان کے شب و روز کا جائزہ لیں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ کام شریف آدمی کے بس کاہے ہی نہیں۔ وہ تھانہ کچہری میں ایسے جاتے ہیں جیسے اللہ کے نیک بندے مسجدوں میں جاتے ہیں۔ وہ مسجدوں سے بچتے ہیں اور نیک لوگ تھانوں سے۔ انہیں اپنے علاقے میں لوگوں کو تابع رکھنے کے لیے ایسے ہی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جب سیاست تھانہ میں در آتی ہے تو پھر ان کا آپس میں لین دین شروع ہو جاتا ہے۔ پولیس تو دونوں پارٹیوں سے اپنے نوٹ ہرے کرتی ہے۔ طولانی تمہید کے بعد ہم بات کرتے ہیں موجودہ صورتحال کی کہ عمران خان کی طرف ہر طرف سے الیکٹی بلز اور سلیکٹی بلز کچے دھاگے سے بندھے چلے آئے ہیں۔ رات میں کچھ اینکرز کا واویلا سن رہا تھا کہ عمران خان کی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے کہ وہ لاڈلہ ثابت ہو چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ امپائر نے میچ سے پہلے ہی عمران کا ہاتھ فضا میں بلند کردیا ہے۔ مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا جب عمران خان ہی کے روپ میں نوازشریف پسندیدہ تھا۔ اس وقت غلام اسحاق خان کتنی دیدہ دلیری سے واشگاف انداز میں بینظیر کے خلاف تقریر کر رہے تھے کہ سارا کام انہوں نے کردیا ہے اور پیپلزپارٹی کے تابوت میں عوام آخری کیل ٹھونک دیں۔ اس وقت ہم الیکشن ڈیوٹی پر جا رہے تھے اور ہمارے سارے عملے نے یہ تقریری پیغام ریڈیو پر سنا۔ بات کچھ اس سے آگے بڑھ چکی ہے‘ جب کسی کا مقدر چمکتا ہے تو پھر حالات خودبخود بھی اس کے حق میں ہو جاتے ہیں۔ کل میرے برادر نسبتی کا بیٹا توصیف احمد میرے گھر آیا۔ اپنے بچوں کو چھوڑ کر کام سے چلا گیا۔ رات گئے واپس آیا تو پتہ چلا کہ وہ بڑے اہتمام سے پی ٹی آئی کے جلسے میں گیا تھا۔ لیکن حیرت مجھے یہ سن کر ہوئی کہ ان کے مرشد حبیب عرفانی نے ان کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ پی ٹی آئی کا جلسہ سننا ہے۔ میرے برادر نسبتی اور ان کے بچے حبیب عرفانی صاحب کے مرید ہیں۔ باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ باقاعدہ سپورٹ کر رہے ہیں۔ یقینا ان کے مرید ہزاروں میں ہیں۔ ان سے میرا بھی تعلق خاطر ہے۔ یہ ان کے والد گرامی وجیہہ السما عرفانی کا فیض ہے جو جاری ہے۔ وہی وجیہہ السما عرفانی جنہوں نے کہا تھا: غنچہ شوق لگا ہے کھلنے پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے میں نے چھپ کر تیری باتیں کی تھیں جانے کب جان لیا محفل نے میری ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ ادیبوں‘ شاعروں میں اس سطح کے عالم فاضل کم کم ہی ملیں گے۔ حبیب عرفانی صاحب نے تو روحانیت کے ساتھ ساتھ دلوں کو طبعی طور پر جوڑنے کا کام بھی کیا ہے۔ الاخیار کے تحت ان کا ڈاکٹر بیٹا بھی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ان غریب بچوں کا علاج کرتے ہیں جن کے دل میں سراخ ہوتا ہے۔ یہ بہت مہنگا علاج ہے جو مفت کیا جاتا ہے۔ میرے معزز قارئین! میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ کیسے کیسے اچھے لوگ بھی عمران خان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والے سچ مچ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم عمران کے ساتھ ہیں تو کچھ سوچ کر۔ اگر اس نے اپنا وعدہ ایفا نہ کیا تو پھر اسکا حشر نشر بھی ہو جائے گا۔ اپنے دوست عدیم ہاشمی کا شعر یاد آ رہا ہے: اس نے ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا تو خان صاحب ہم بھی آپ کو مکرنے نہیں دیں گے۔ ہم آپ سے اسی گیم کی توقع کریں گے جس میں سنک ہو جائے تو ماجد خان خود ہی کریز چھوڑ دیتا ہے۔ پنجابی زبان میں کہیں تو ہم روند نہیں مارنے دیں گے۔ کچھ تو عمران خان ٹھیک جارہا ہے اور کچھ مخالفین ’’بوندل‘‘ گئے ہیں۔ ان کی بدحواسیاں عیاں ہے۔ مثلاً رانا ثناء اللہ نے کچھ زیادہ ہی بونگیاں مارنی شروع کردی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ بھنور جو میاں برادران کو ڈبونے جا رہے ہیں خود انہوں نے ڈالے ہیں۔ ممتاز قادری اور پھر ختم نبوت والی شق میں ترمیم کی جسارت ان کو لے بیٹھی ہے۔ اللہ اپنی نشانیوں سے پہچانا جاتا ہے‘ اس کی ناراضگی بندے کی مت ہی تو مار دیتی ہے۔ وہی جسے عرف عام میں پکڑکہتے ہیں۔ کہاں احسان دانش یاد آئے: آ جائو گے حالات کی زد پر جو کسی روز ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے