پچھلے دنوں خانپور کی نواحی بستی دھریجہ نگر میں جھوک پبلی کیشن کی سالگرہ تھی ۔ ممبر صوبائی اسمبلی میاں شفیع محمد سمیت وسیب کے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں نے شرکت کی ۔ مقررین نے خانپور کی تاریخی ‘ ثقافتی حیثیت کے ساتھ ساتھ معاشی پسماندگی کا بھی جائزہ لیا ۔ مقررین نے کہا کہ یہ غنیمت ہے کہ خانپور کا واحد صنعتی ادارہ حمزہ شوگر مل خانپور کی سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور کاشتکاروں کو بھی اسکا فائدہ ہو رہا ہے۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ خانپور میں مزید صنعتیں قائم کی جائیں ۔ تقریب کے میزبان آصف دھریجہ تھے ۔ بندہ ناچیز سمیت بہت سے مقررین نے اپنے خیالات میں حکومت اور سیاستدانوں کو خانپور کے بنیادی مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ خان پور کی ضلعی حیثیت اور اس کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کی ضرورت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے خان پور کوتحریک آزادی کا مرکز اور ریاست بہاول پور کا برمنگھم کہا جاتا تھا۔ خان پور کی تجارت براہ راست دہلی سے تھی اور خان پور کے کسی ایک سیٹھ کا ’’ٹیبھوں‘‘ (آج کا ٹریول چیک) کے ذریعے دہلی سے لاکھوں کا مال مل جاتا تھا ۔ خان پور سے ریلوے ٹرین براستہ سمہ سٹہ بہاولنگر امروکہ وبٹھنڈہ دہلی تک جاتی تھی ‘ خان پور کے لوگ بہت خوشحال اور مالدار تھے مگر قیام پاکستان کے بعد خان پور سے سب کچھ چھن گیا آج خان پور کے امیر لوگ کراچی میں مزدوری کررہے ہیں اور یہاں کی عورتیں کراچی کے سیٹھوں کے گھر ’’ماسیاں‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ خان پورکے لوگوں کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرانے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی اور انہیں اپنی قوت بازو پر انحصار کرنا ہوگا ‘ حکمرانوں سے حق بھیک سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے حق کو اپنا حق سمجھ کر مانگنا ہوگا ۔ خان پور سرائیکی وسیب کا زرخیز اور مردم خیز خطہ ہے ‘ اس خطے نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ جیسی عظیم ہستی کو جنم دیا ‘ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز بھی خان پور تھا اور تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مولانا عبید اللہ سندھی نے یہیں سے انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی ‘ حضرت سندھی آج اسودہ خاک بھی خان پور میں ہی ہیں۔ خان پور کی سر زمین نے عظیم روحانی پیشوا حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ ‘ مولانا عبدالہادی ‘ مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ‘ حضرت سراج اہلسنت مفتی واحد بخش ‘ مولانا عبداللہ درخواستی ‘ مولانا عبدالشکور دین پوری ‘ مولانا یار محمد دھریجہ ‘ بابا امان اللہ دھریجہ ‘ مولانا عبدالغنی جاجروی ‘ مولانا خورشید احمد فیضی ‘ خواجہ محمد یار فریدی ‘ خواجہ دُر محمد کوریجہ ‘ حضرت جیٹھہ بھٹہ سرکارؒ ‘ حضرت شیخ عبدالستار ‘ حضرت بابا رنگیلا شاہ ‘ مغل بادشاہ کے مشیر بیربل۔ اسی طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشاہیر کو جنم دیا ۔ خان پور کو تحریک آزادی کا مرکز ہونے کے ساتھ یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلے سرائیکی وسیب کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی اور یہاں کے ایک سپوت ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاول پور صوبے کیلئے بہت کام کیا اور بعد ازاں بہاول پور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ کا روپ دیکرالگ صوبے کی تحریک میں شامل کر دیا ‘ اسی طرح خان پور کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلا اخبار ڈٖینھ وار ’’جھوک‘‘ سرائیکی شروع ہوا ۔ خان پور پہلے ضلع تھا اور خان پور کو انگریزوں نے ریلوے کا سب سے بڑا جنکشن تھا اور خان پور چاچڑاں کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیاسی مصلحتوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور خان پور کو ضلع سے تحصیل بنا دیا گیا۔ تقریب میں قرارداد یں اور مطالباب پیش کئے گئے جنہیں حاضرین نے متفقہ طور پر منظور کیا دوسری قراردادوں میں سرائیکی صوبے کے قیام سمیت جو دوسرے مطالبات شامل تھے ان کی تفصیل یہ ہے:خان پور کی سابقہ ضلعی حیثیت بحال کر کے اسے ضلع کا درجہ دیا جائے اور خان پور چاچڑاں لائن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر اسے ایک طرف براستہ ڈیرہ غازی خان کوٹ ادو کندیاں میاں والی گولڑہ پنڈی سے پشاور تک ملایا جائے دوسر ی طرف براستہ کوٹ مٹھن جیکب آباد سے کوٹ مٹھن تک ملایا جائے ۔اور ریلوے کے ابتدائی منصوبے کے تحت خان پور کو ’’ریلوے ہب‘‘ کا درجہ دے کر اسے بڑا جنکشن بنایا جائے اور مغل پورہ لاہور کی طرز کی یہاں ورکشاپس قائم کی جائیں۔ خانپور میں صحافی کالونی اور وکلا کالو نی کی منظوری کے ساتھ سرکاری سیکٹر میں تین مزید ہاوسنگ سکیموں منظوری دی جائے تا کہ یہاں کے لو گ بلڈرز مافیا پراپرٹی ڈیلر واسٹیٹ ایجنسیوں کی لوٹ کھسوٹ سے نجات حاصل کر سکیں۔ خانپور کو ٹیکس فری زون قرار دے کر یہاں ٹیکس فری انڈسٹریل سٹیٹ قائم کی جائے۔خانپور کی واحد ٹیکسا ئل مل BTMچالو کی جائے۔اور اس مل کے ہزاروں مزدوروں کوروزگار کے ساتھ ان کے کروڑوںکے واجبات ادا کرائیں جائیں۔ خانپور کے سینکڑو ں ایکڑ رقبہ پر زرعی یونیورسٹی قائم کی جائے اور زرعی تحقیقاتی مرکز(روغندار اجناس)خانپور کو رینجرز سے واگزار کر اکر اسے زرعی کالج کا درجہ دیا جائے۔ منظو ر شد ہ خانپور کیڈٹ کالج پر فوری مکمل کرانے کے ساتھ خانپور میںانجینئرنگ کالج کی بھی منظوری دی جائے اور سرکاری تعلیمی اداروںمیں باقی پنجاب کے برابر تعلیمی سہولتیں مہیا کی جائیںنیز خانپور کے بوائز اورگرلز کالجوں میں سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ تعینات کیے جائیں ۔اسی طرح محکمہ تعلیم لاہور کو سرائیکی وسیب کے جن کالجوں کی طرف سے سرائیکی پڑھانے والے اساتذہ کی ڈیمانڈ کی گئی ہے اسے فی الفور پوراکیا جائے ۔خانپور شہر میں صحت و صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر فوری توجہ مرکوز کی جائے ۔سیوریج سسٹم کو بحال کیا جائے ۔اور خانپور شہر کے کی بہتری کے لیے بھاری پیکیج دیا جائے ۔ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا خاتمہ کیا جائے ۔شکارکی پابندی کے قانو ن کو مؤثر بنایا جائے ۔غیر ملکی عرب شہزادوں کو ذاتی مفاد کے عوض سرائیکی دھرتی پٹے پر دینے کی روایت ختم کی جائے اور چولستان میں لوگوںکو پینے کا پانی مویشیوں کے لیے چارہ اور آمد ورفت کے لیے ذرائع آمد و رفت مہیا کیے جائیں ۔ خان پور کے قصبات باغ وبہار ، ظاہر پیرکو تحصیل کا درجہ دینے کے ساتھ یہاں گرلز اور بوائز کالجوں کا قیام عمل میں لایا جائے ۔اور چاچڑاں کا فرید محل جسے مرغیوں کا ڈربہ بنادیا گیا ہے فوری واگزار کرکے اس پر خواجہ فرید میوزیم بنایاجائے ۔اور رحیم یارخان کے پتن منارہ کو حقیقی معنوں میں قومی ورثہ قرار دے کر اس تعمیر و تزئین کی جائے ۔ پتن منارہ کے رقبے کو قبضہ گروپو ں سے بچایا جائے۔