کمان میں توسیع متوقع تھی۔ کیوں؟ کیونکہ دورانِ جنگ جنرلز تبدیل نہیں ہوتے۔ اس پر ایک سے زیادہ آراء ہیں کہ جب جنرل کیانی کو 2010ء میں پیپلز پارٹی نے توسیع دی اس وقت حالات کیا تقاضا کرتے تھے اور اب جب جنرل باجوہ کو توسیع دی گئی ہے تو کیا وقت واقعی اس کا متقاضی ہے؟ پاکستان کی سیاسی تاریخ سے آگاہ جانتے ہیں کہ ہم 79ء سے ہی ایک فرنٹ لائن سٹیٹ ہیں۔ خمینی کے انقلاب ایران اور سوشلسٹ روس کی افغانستان آمد نے ایک Paradigm شفٹ کو جنم دیا۔ پھر 88ء میں روس چلا گیا اور مجاہدین کے خوابوں کی تعبیریں جابجا نظر آنے لگیں۔ نائن الیون ایک اور ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ ہماری فوج کا نظریاتی اور سٹریٹجک ڈیزائن ہی ہمارے مشرق میں بھارت کے عزائم سے وابستہ رہا ہے۔ مگر ہم مغرب میں بھی ایک جنگ چھیڑ بیٹھے۔ نہ نہ کرتے ہوئے بھی۔ مغرب میں افغانستان اور مشرق میں بھارت۔ جنگ کا اعلان بھی نہ ہوا اور جنرل ضیاء سے مشرف تک یہ جنگ لڑی جاتی رہی۔ اس کی قیمت عوام اور پاک فوج دونوں ادا کرتے رہے۔ 2010ء میں جب جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تو پاکستان داخلی اعتبار سے شدید سیکورٹی خطرات سے دوچار تھا۔ اس سے پہلے جنرل مشرف اور اس سے پہلے جنرل ضیاء جو جو کھیل کھیل چکے تھے ان کے منطقی نتائج ظاہر ہورہے تھے۔ امریکہ ہمیں شک کی نظر سے دیکھتا تھا اور انتہا پسند نان سٹیٹ ایکٹرز بھی ہمیں اسی طرح ہی دیکھتے تھے۔ جنرل کیانی نے جو ایجنڈا ادھورا چھوڑا اسے جنرل راحیل شریف نے ایک خاص انجام تک پہنچایا۔ مگر کیا جنرل کیانی کی توسیع میں یہی ایک فیکٹر فیصلہ کن تھا؟ جی نہیں … دیگر فیکٹرز بھی تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ سول ملٹری تعلقات میں توازن پیپلز پارٹی کی حکومت کے حق میں نہ تھا۔ میمو گیٹ … نواز شریف اور افتخار چودھری کے باوجود آصف زرداری تسلسل چاہتے تھے۔ اسی تسلسل کی خواہش میں بہت کچھ ہوا۔ چائے بار بار پیالی سے چھلکی مگر کپ گرنے سے پہلے ہی سنبھل گیا۔ جب میاں نواز شریف نے جنرل کیانی کی جگہ جنرل راحیل کو کمان سونپی تو جلد ہی 2014ء کا مشہور زمانہ دھرنا ہوگیا۔ نوازشریف قریب تھا کہ گرجاتے مگر جنرل راحیل نے مداخلت نہ کرکے دھڑن تختے کو روک دیا۔ راحیل شریف نے کبھی میاں نواز شریف سے توسیع کی درخواست نہ کی۔ میاں صاحب سے جب بھی پوچھا گیا وہ ٹال گئے مگر رہے کافی تنگ۔ اب کے مرتبہ وہ اپنی مرضی کا جنرل لانا چاہتے تھے مگر وہ یہ بھول جاتے تھے کہ جنرل اپنے ادارے اور ملک کا ہوتا ہے نہ کہ حکومت کا یا کسی شخص کا۔ فوج کا نفسیاتی اور ادارہ جاتی سٹرکچر پاکستان کے لیے ہے نہ کہ کسی اور کے لیے۔ نواز شریف کا مزاج ہی ان کی تقدیر بن گیا اور وہ کبھی بھی کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ کمفرٹیبل نہ رہے۔ جنرل آصف نواز سے جہانگیر کرامت تک اور جنرل مشرف سے راحیل شریف تک۔ جب جنرل باجوہ نے کمان سنبھالی تو سبھی پنڈتوں نے اپنا اپناکیس ورک کیا۔ میاں نواز شریف نے معاشی سیکورٹی اور بھارتی عزائم کے ڈسپلن میں جو کیا وہ الگ کہانی ہے۔ جب پانامہ واقع ہوا تو تقدیر اور تاریخ نے اپنا راستہ بنایا اور 2018ء میں قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا۔ جنرل قمر باجوہ ملنسار مگر انتہائی پروفیشنل سولجر ہیں۔ میڈیا میں ان کے خیالات پر ڈسکشن ہوتی رہتی ہے۔ کبھی باجوہ ڈاکٹرائن … کبھی ہائبرڈ وار اور کبھی ففتھ جنریشن وار پر۔ بہت کم اس بات پر دھیان دیا جاتا ہے کہ ادارے کے سربراہ کی شخصیت اور پروفائل کا ایک اپنا رول ہوتا ہے۔ مگر ادارہ جاتی سوچ ازحد اہم ہوتی ہے۔ کوئی بھی آرمی چیف ادارہ جاتی سوچ کے برعکس خیالات کا اظہار نہیں کرتا بلکہ جب بولتا ہے تو اپنے ادارے کو Reflect کرتا ہے۔ میاں نواز شریف کے کبھی کسی آرمی چیف سے زیادہ آئیڈیل تعلقات نہیں رہے۔ جنرل باجوہ ان ہی کے لائے ہوئے تھے۔ مگر فوج تاریخ کی سان پر سفر کرتے ہوئے پاکستان کے قومی مفاد کی ضامن بھی ہے۔ ایسے میں میاں نواز شریف اور ادارے کے مابین تنائو نے جنم لیا۔ پھر شریفس اپنے ہی بُنے ہوئے جال میں الجھتے، لڑکھڑاتے اور گرتے چلے گئے۔ اسی میں پانامہ ہوا اورا لیکشن 2018ء بھی۔ عمران خان نے اقتدار میں اپنی آمد سے پہلے ہی یہ طے کرلیا تھا کہ وہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں آنے دیں گے۔ میڈیا کے باخبر پنڈت اور سول سیاسی قوتیں جانتی ہیں کہ جنرل باجوہ ذاتی زندگی میں انتہائی Accomodative مگر پیشہ وارانہ اعتبار سے انتہائی اپ ٹو دی مارک ہیں۔ اس وقت پاکستان انڈیا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ جنگ صرف وہی نہیں ہوتی جو سرحدوں پر فوج اور اسلحے کے ساتھ لڑی جاتی ہے۔ معاشی میدانوں میں بھی لڑائی ہوتی ہے اور سفارتی ایوانوں میں بھی۔ عالمی محاذ پر بھی اور علاقائی بساط پر بھی۔ اس سٹیٹ آف وار کا اگر ایک ستون وزیراعظم ہائوس ہے تو اس کا اتنا ہی اہم ستون فوج اور فوجی قیادت بھی ہے۔ پاکستان میں میڈیا ’’ہمارے‘‘ اور ’’تمہارے‘‘ میں بٹ چکا ہے۔ اسی لیے بعض پنڈت کتابی تھیوریز کا سہارا لے کر عمران خان کو جنرل باجوہ کی توسیع کے ریفرنس میں تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ دورانِ جنگ سپہ سالار تبدیل نہیں کیے جاتے۔ ساری صورتحال کو دو ہی افراد زیادہ قریب اور تفصیل سے جانتے ہیں۔ سول چیف اور آرمی چیف۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی داخلی صورتحال سے گھبرا کر … عالمی دبائو سے زچ ہو کر محدود پیمانے پر آزا دکشمیر پر حملہ کرسکتاہے۔ یہ چھوٹی لڑائی … بڑی لڑائی میں بدل سکتی ہے۔ جنرل باجوہ کی کمان میں ہماری افواج بھارت سے یہ ’’یدھ‘‘ لڑنے کو پوری طرح تیار ہے۔ پاکستان اس وقت جہاں کھڑا ہے سیکورٹی کے اعتبار سے داخلی اور خارجی … فوج کی کمان میں تبدیلی ضعف کا سبب بنتی … سول حکومت کے لیے بھی اور پاکستان کے لیے بھی!!!