آج صبح روزنامہ 92 نیوز ملتان کے ایک دوست کافون آیا وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کا آج کا کالم ’’ کوئی خوشخبری بھی تو پڑھنے کو ملے ‘‘ مجھے بہت اچھا لگا اور کالم کو ایک بار پڑھنے کے بعد دل نے چاہا کہ دوسری مرتبہ پڑھوں ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کی یہ خواہش بجا کہ کوئی خوشخبری بھی تو پڑھنے کو ملے لیکن اس پر میرا تھوڑا اختلاف ہے کہ خبر خبر ہوتی ہے ‘ رپورٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر خبر دے ، میڈیا کی مثال آئینے کی مانند ہے ، جیسی شکل ہے ، آئینہ وہی کچھ دکھائے گا ۔ اس کے ساتھ سرائیکی زبان کے معروف شاعر سئیں عاشق بزدار نے شکوہ کیا کہ آپ نے 13 نومبر کے اخبارات میں شائع ہونیوالی خبروں کا تذکرہ کیا ، اسی دن 34 ویں سالانہ سرائیکی کانفرنس مہرے والاضلع راجن پور کی خبریں بھی شائع ہوئی تھیں ، آپ نے اس پر رائے زنی نہیں کی ۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ واقعی مہرے والا کی سالانہ دو روزہ کانفرنس عظیم الشان تھی دونوں تواریخ کو ہزاروں افراد نے شرکت کر کے وسیب نے ثابت کیا کہ کہ وسیب کے لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں ، وسیب کی شناخت کے ساتھ صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ عاشق بزدار کے علاوہ دیگر دوستوں نے کالم پسند کیا اور فون پر حوصلہ افزائی کی ، میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔ خبروں کی بات چلی ہے تو اس سلسلے کو آج کے دن کیلئے جاری رکھتے ہوئے چند ایک دیگر خبروں کا ذکر کروں گا جیسا کہ آج کے اخبارات میںایک خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’وفاقی حکومت نے صوبہ ہزارہ بنانے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبہ ہزارہ کیلئے پارلیمانی جماعتوں سمیت وسیع تر مشاورت کا فیصلہ کر لیا ، صوبہ ہزارہ کیلئے وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی کو اہم ٹاسک مل گیا ، ہزارہ صوبہ سے متعلق تمام پارٹیوں سے مشاورت مکمل کر کے مفصل رپورٹ تیار کی جائے گی ۔‘‘ اس بارے گزارش یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ ہزارہ ، ہندکون اور پوٹھوہاری خطے کے قدیم باسی اور گندھارا تہذیب کے وارث ہیں ، صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے وقت ان سے اور ڈی آئی خان و ٹانک کے سرائیکیوں سے حق تلفی ہوئی ، کسی کو اعتراض نہیں کہ ان کے حق کے بارے میں سوچا جائے مگر سرائیکی صوبے کا مقدمہ اس سے پہلے ہے کہ آئین سازادارہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل یوسف رضا گیلانی کے دور میں پاس کر چکا ہے ۔ ایک لحاظ سے سرائیکی صوبے کو جزوی طور پر آئینی تحفظ مل چکا ہے ۔ ایک اور خبر کے مطابق ’’ پنجاب ٹیچرز یونین کل 15 نومبر سے الگ صوبے کے قیام کیلئے احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی اور اساتذہ اپنے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر تدریسی امور سر انجام دیں گی ۔ اس سلسلے میں پنجاب ٹیچرز یونین کے سینئر نائب صدر پنجاب رانا الطاف حسین نے کہا ہے کہ خطہ کی محرومیوں اور پسماندگی کے خاتمے کے سلسلے میں الگ صوبے کے قیام کی تحریک کا کل سے باقاعدہ آغاز ہو گا اور ابتدائی مرحلے میں اساتذہ ملتان سمیت پورے وسیب میں سیاہ پٹیاں باندھ کر تدریسی امور سر انجام دیں گے ۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ اور احتجاجی مظاہرے بھی کئے جائیں گے اور وسیب کے اراکین اسمبلی کے دفاتر ، رہائش گاہوں کے سامنے احتجاجی دھرنے بھی دیئے جائیں گے ۔‘‘ یہ خبر نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ رانا الطاف صاحب پنجابی سپیکنگ ہیں اور ان کی یونین کا نام بھی پنجاب ٹیچرز یونین ہے اور سب سے اہم یہ کہ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی طرف سے یہ اعلان ہوا ہے کہ ہم صوبے کے قیام کیلئے سڑکوں پر آئیں گے ۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے عہدیداروں نے سب سے زیادہ دوش جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والوں کو دیا ہے، جنہوں نے صوبہ محاذ بنایا ، اپنی پارٹیوں اور اسمبلیوں سے استعفے دیئے اور نیلی اجرکیں پہن کر تحریک انصاف سے سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدے کا ڈھونگ رچایا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد سب کچھ بھول گئے ، جب وسیب کی طرف سے پریشر بڑھا تو ملتان سب سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دے دیا گیا اور اس مسئلے پر بھی ملتان ، بہاولپور کے نام پر حکومتی وزراء نے ہی جان بوجھ کر تفریق پیدا کر دی اور وسیب میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرنے کی بجائے نفاق کی صورتحال پیدا کر دی ۔ وسیب کے جاگیردار اور سیاستدان سمجھتے ہیں کہ لوگ بے وقوف ہیں ، ان کو کسی بات کا علم نہیں لیکن در اصل سیاستدان خود نادان ہیں ‘ عوام ہر بات کا ادراک رکھتے ہیں اور شاید سیاستدانوں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ رانا الطاف کے بیان سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ صوبہ صرف وسیب کے سرائیکی بولنے والوں کی ڈیمانڈ نہیں بلکہ وسیب میں بسنے والے تمام لوگوں کی ضرورت ہے ۔ در اصل دیکھا جائے تو صوبہ وفاق پاکستان کی ضرورت بھی ہے کہ نئی مردم شماری کے مطابق ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل ایک صوبہ پنجاب ہے اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے ہیں ۔ اس کا مطلب ایک پہیہ ٹریکٹر کا اور تین پہیے کار کے ، وفاق کی گاڑی کس طرح چل پائے گی ؟ اور سینیٹ جو کہ صوبوں کی مساوی نمائندگی کا ادارہ ہے ، وہاں ساٹھ فیصد آبادی کی نمائندگی 25 فیصد اور 40 فیصد آبادی کی نمائندگی 75 فیصد ہے ۔ وفاق کو متوازن بنانے کیلئے اور پنجاب کے خلاف چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ بلا تاخیر پنجاب میں صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ گزشتہ کالم میں مہنگائی کا ذکر ہوا تھا ،اس سلسلے میں آج کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جو کہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہے ، خبر کا متن یہ ہے کہ ’’سابق قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے ٹماٹروں کی ہوشربا قیمت پر مزاحیہ ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ایسے حالات ہیں جب ٹماٹروں اور چلغوزوں سے بنا ہوا گلدستہ شادی میں بخوشی تحفے کے طور پر قبول کیا جائے گا ۔‘‘ایک یہ خبر کہ ’’ سابق بھارتی چیف جسٹس اے کے گنگولی نے کہا کہ جج ہوتا تو بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیتا، بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد شہید کرنے کے جرم کو جائز قرار دیا جس پر افسوس ہے۔ ‘‘ سابق بھارتی چیف جسٹس کا بیان انصاف پرمبنی ہے اور پوری مسلم امہ کے دل میں ان کا احترام بڑھ گیا ہے ۔ آخر میں ’’مسلم لیگ ( ق ) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ عمران خان کو اللہ نے موقع دیا ہے ،ملک کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے اچھے فیصلوں میں مینگنیاں ڈالنے والوں کی نہ سنیں ۔ ‘‘چوہدری صاحب حکومت کا حصہ ہیں ‘ ان کی بات پر حکومت کو توجہ دینی چاہئے ۔