صرف مُنہ چڑانے ‘ ایک دوسرے کا گریباں پکڑنے اور مُنہ نوچنے کی کسر باقی ہے‘ بدذوقی سیاست میں عام تھی۔ لچر پن اور ابتذال بھی در آیا‘ چند سال قبل تک بڑے سیاستدان اپنے مخالفین کی تحقیر کے لئے ان گھڑ اور کندہ ناتراش کارکنوں کو آگے کرتے۔ ماضی قریب میں دانیال عزیز‘ طلال چودھری اور عابد شیر علی کا مسلم لیگ میں مصرف یہی نظر آتا تھا کہ لیڈر اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص عمران خان کے خلاف جو غیر ثقہ اور ناشائستہ بات‘ کہنا نہیں چاہتے ‘یہ مُنہ پھٹ کہہ گزرتے اور داد سمیٹتے ۔ تحریک انصاف نے تنگ آ کر شیخ رشید احمد اور فواد چودھری کی خدمات حاصل کیں جو ترکی بہ ترکی جواب دیتے اور کارکنوں کے علاوہ قائدین سے شاباش لیتے۔ اب مگر وزیر اعظم عمران خان اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری طعنہ زنی‘ ہجو گوئی اور ایک دوسرے کو کوسنے دینے میں خودکفیل نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز عمران خان نے بلاول بھٹو کو ’’صاحبہ‘‘ کہا جو جواب آں غزل تھا یا سبقت لسانی کا نتیجہ مگر مجھے حیدر علی آتش یاد آئے ؎ لگے منہ بھی چڑھانے‘ دیتے دیتے گالیاں صاحب زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجئے‘ دہن بگڑا مجلس احرار اسلام کے لیڈر مظہر علی اظہرنے قائد اعظم کے بارے میں زبان درازی کی‘ ایک بے ہودہ شعر کہا تو آغا شورش کاشمیری راوی ہیں کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رو دیے۔ کہا کہ اس نے مجلس احرار اسلام کی زندگی بھر کی کمائی لٹا دی‘ مجھے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اختلاف قائد اعظم سے تھا تو اس عفیفہ کا خیال کیا ہوتا جس نے اسلام قبول کیا ۔ مظہر علی اظہر کے اس شعر نے مجلس احرار اسلام کی سیاسی بساط لپیٹ دی‘ قائد اعظم تو خیر قائد اعظم تھے‘ ہر لفظ تول کر بولنے اور اپنے علاوہ دوسروں کی عزت نفس کی پاسداری کرنے والے بے مثل و بے نظیر لیڈر‘ ان کے دیگر ساتھی بھی مخالفین کے بارے میں اخلاق سے گری گفتگو ہرگز نہ کرتے۔ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں میں بھی مخالفین کو تحقیر آمیز انداز میں مخاطب کرنے کا عمومی کلچر نہ تھا۔ مُستثنیات ہر دور اور ہر جماعت میں تھیں۔ ایوب دور میں زاہدہ خلیق الزمان اپوزیشن کا ہدف رہی اور فیلڈ مارشل نے ایک موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں غیر محتاط زبان استعمال کی مگر جلد ہی سنبھل گئے۔1970ء کی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے مخالف سیاستدانوں کے نام بگاڑے‘ انہیں آلو‘ چوہا وغیرہ کے القابات سے نوازا اور پیپلز پارٹی کے حامی صحافیوں نے صف اول کے سیاستدانوں پرکیچڑ اچھالا جس کا بدلہ اپوزیشن نے 1977ء کے انتخاب میں خوب چکایا۔1970ء کی دہائی میں سیاستدانوں اور ان کے ہمنوا قصیدہ گو صحافیوں نے ایک دوسرے کے خلاف جو بازاری زبان استعمال کی وہ تو خیر اب بھی مفقود ہے کسی کا شجرہ نسب کھنگالا جا رہا ہے نہ ابھی تک مخالفین کو سربازار رسوا اور زدوکوب کرنے کی نوبت آئی‘ 1970ء کے عشرے میں تو عوامی حکومت نے ملک محمد قاسم اور میاں طفیل جیسے شریف النفس سیاستدانوں سے وہ سلوک کیا جو سندھ کے وڈیرے باغی ہاریوں سے کرتے ہیں جیلوں میں برف کی سلوں پر لٹانا‘ ننگ دھڑنگ تصویریں اتارنا اور مولانا شاہ احمد نورانی کی پگڑی تار تار کرنا‘ جن دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو عمران خان فیاض الحسن چوہان اور فواد چودھری کی جملے بازی کھٹکتی ہے انہیں علم ہی نہیں کہ فخر ایشیا کے دور میں سینئر وفاقی وزیر جے اے رحیم‘ مختار رانا‘ معراج محمد خان کے علاوہ ضلع سیالکوٹ کے رکن اسمبلی ملک سلیمان کی اہلیہ اور بیٹیوں کے ساتھ قیادت کے حکم پر کیا سلوک ہوا اور احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان‘ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمد‘ خواجہ سعد رفیق کے والد گرامی خواجہ رفیق کو کس جرم میں قتل کیا گیا۔ 1988ء کی انتخابی مہم کے دوران محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی کردار کشی زیادہ پرانی بات نہیں اور 1996ء کے انتخاب میں عمران خان کو عیاش سیاستدان ثابت کرنے کے لئے جو مہم چلی وہ لچر پن کا شاہکار تھی‘ تاہم گزشتہ تین انتخابات کے دوران (2008ء تک 2018ء ) کرپٹ‘ نااہل اور ‘تجربہ کار کے نعرے لگے۔ مودی کا یار اور چوروں‘ لٹیروں کا ٹولہ بھی ایک دوسرے کو کہا گیا‘ لیکن ذاتی اور سوقیانہ گفتگو حملوں کی نوبت نہیں آئی۔ پارلیمنٹ کے قیام اور حکومت کی تشکیل کے بعد لیکن یوں لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کا ضبط جواب دے گیا ہے اور صرف کارکن نہیں لیڈر بھی پھکڑ پن پر اُتر آئے ہیں‘ ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنا اور نالائقی و ناکامی کے طعنے دینا تو معمول کی بات ہے لیکن نام لے کر ایک دوسرے کے کردار اور جنس کو نشانہ بنانا زیادتی ہے‘ عربی میں کہتے ہیں الناس علیٰ دین ملوکھم(عوام اپنے حکمرانوں اور رہنمائوں کے راستے پر چلتے ہیں) جب ملک کا وزیر اعظم سٹیج پر کھڑے ہو کر مخالفین کے بارے میں غیر ثقہ زبان استعمال کرے گا اور مستقبل میں حکمرانی کا خواہش مند لیڈر اپنے سے دگنی عمر کے سیاستدان و حکمران سے تو‘ تڑاق کریگا تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ان دونوں لیڈروں کو اپنا آئیڈیل سمجھنے والی نئی پود کی لفظیات کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اردو زبان پر عبور نہ تھا ایک بار جلسہ میں عوام کے لفظ کو مونث کے طور پر استعمال کیا’’میرے ملک کی عوام چاہتی ہے‘‘ آج تک صرف سیاسی لیڈروں نہیں تجزیہ کاروں‘ اینکرز‘ دانشوروں اور کالم نگاروں کی اکثریت عوام کو مونث کے طور پر لکھتی ‘ بولتی چلی آ رہی ہے۔ تصحیح کرو تو گھورنے لگتے ہیں۔ بعض تو الجھ پڑتے ہیں کہ آپ کون ہیں ہماری زبان درست کرنے والے‘ گزرے زمانوں میں کلام الملوک کو ملوک الکلام قرار دیا جاتا تھا یعنی بادشاہوں کی زبان‘ زبانوں کی بادشاہ ہوتی ہے۔ شستہ‘ شائستہ‘ محتاط ‘ متوازن اور دل کو چھو لینے والی ہے ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی مگر اب سیاستدانوں کی تقریریں بعض دانشوروں کی گفتگو سن کر ابکائی آتی ہے ؎ بک رہا ہوں‘ جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی اقبالؒ نے نگہ بلند‘ سخن دلنواز ‘ جاں پرسوز کو میر کارواں کا رخت سفر قرار دیا تھا مگر اب معذرت کے ساتھ ہیجان‘ تلخ نوائی اور یاوہ گوئی؟ ع یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے حکومت اپوزیشن دونوں کے رہنما لگتا ہے کہ قوم کی لفظیات بگاڑنے اور لغت میں موجود ہر برے لفظ و لقب سے اپنے مخالفین کو نوازنے کے لئے سرگرداں ہیں کسی کو اپنے مقام و منصب کا لحاظ ہے نہ نوجوان نسل کے اذہان پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی فکر۔ سیاسی کارکن بھی الا ماشاء اللہ فرط عقیدت میں واہ واہ سبحان اللہ پکار رہے ہیں اپنے لیڈروں کی غلطیوں کا دفاع اور مخالفین کی کردار کشی گویا ان کا قومی و مذہبی فرض ہے اور وہ اپنا یہ فرض خلوص دل اور جوش و جذبے سے ادا کر رہے ہیں کوئی کہنے والا نہیں کہ ع زباں بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا