توصیف احمد خان اردو صحافت میں استاد کا درجہ رکھتے ہیں، بڑے اخبارات میں بڑے عہدوں پر فائز رہے، مجھ سے چار پانچ سال بڑے ہیں ، انہیں اس وقت کسی ملاز مت کی ضرورت نہیں ، لیکن وہ صحافتی چسکا پورا کرنے اب بھی ایک میڈیا ہاؤس جا رہے ہیں ،انہوں نے مجھے نیوز ڈیسک پر کام کرنا سکھایا، ان کی راہنمائی نہ ملتی تو شاید میں آگے نہ بڑھ سکتا، 1974ء میں وہ ہمارے نیوز ایڈیٹر تھے، مجھے سزا کے طور پر میگزین سیکشن سے نیوز روم بھجوایا گیا تھا، اس تبادلے پر مجھے اس کے سوا کوئی ڈر نہ تھا کہ وہاں رپورٹرز اور نمائند گان کی خبروں کے سوا کچھ بھی اردو میں نہیں ہوتا ، اس زمانے میں اخبارات کو پاکستان اور پوری دنیا سے خبروں کی ترسیل کیلئے اے پی پی اور پی پی آئی ہی دو بڑے سورس تھے اور ان دونوں نیوز ایجنسیوں کی خبریں پرنٹر پر انگریزی میں آیا کرتی تھیں ، نیوز روم کے سوا اور کوئی تربیت کا ذریعہ بھی نہ تھا، ان دو نیوز ایجنسیوں میں حسین نقی اور چاچا رفیق جیسے جید صحافی بیٹھے تھے، مجھے یاد ہے کہ توصیف احمد خان صاحب پہلے کئی دن تو مجھے ارائیول ، ڈیپارچر کی خبریں دیتے رہے، پھر ایک دن انہوں نے مجھے نیوز آف دی ڈے تھما دی ، یہ خبر تھی ماؤزے تنگ کے انتقال کی ، یہ اس دن پوری دنیا کی ہی سب سے بڑی خبر تھی، توصیف صاحب نے جب وہ خبر جس کے سینکڑوں پارٹس تھے، میری جانب سرکائی تو میں نے خوفزدہ آنکھوں سے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے احمد خالد کی جانب دیکھا تھا، احمد خالد نے کہا آج تمہارا امتحان ہے اور تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تم صحافی بن سکتے ہو۔ اس فقرے نے میرے اندر کا خوف ختم کردیا ، میں پوری طرح فارم میں آ چکا تھا، ماؤزے تنگ کے انتقال کی ساری خبریں اس دن میں نے ہی بنائی تھیں، پھر چند ہی دنوں کے بعد دفتر میں میرے اور توصیف احمد خان کے درمیان کبھی ختم نہ ہونے والا بڑے اور چھوٹے بھائی والا تعلق قائم ہو چکا تھا, چند مہینوں کے بعد مجھے انہوں نے سٹی پیج کا انچارج بنا دیا، اس کے بعد ہمارا ایک اور تعلق پیدا ہوا، اور وہ تھا روزانہ رات نو سے بارہ والا شو دیکھنا، وہ مین ڈیسک پر شفٹ انچارج کو بٹھاتے، میں رات نو بجے تک سٹی پیج کی خبریں سمیٹ لیتا ، پھر ہم دونوں ہفتے میں پانچ دن فلم دیکھنے چلے جاتے، واپس آ کر اپنا اپنا کام چیک کرتے اور کاپیاں پریس میں بھجوا دی جاتیں، توصیف صاحب کے پاس موٹر سائیکل تھی اور میں پیدل، وہ ماڈل ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے اور میں اچھرہ میں، اب انہوں نے راستے میں مجھے ڈراپ کرنا شروع کر دیا، ہمارا پہلا پڑاؤ چوک مزنگ چونگی ہوتا، وہاں ایک مخصوص دکان سے پان کھائے جاتے، بوتل پی جاتی اور چند منٹ کا میلہ دیکھ کر آگے بڑھ جاتے، میلہ کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ ان دنوں مزنگ چونگی میں رات کے اس آخری پہر بھی بہت رونق ہوا کرتی تھی, ہمارا گھر شمع سینما کے عقب میں پیر غازی روڈ پر تھا، وہ میرے اس اصرار کے باوجود کہ مجھے فیروز پور روڈ پر شمع کی نکڑ پر اتار دیں وہ مجھے گھر کے دروازے پر اتارا کرتے تھے، میرے اسی لڑکپن میں 1974ء میں میری چھوٹی بہن اور پھر 1976ء میں ابا جی کا انتقال ہوا، پھر ایک سال بعد بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ کر کسی کرخت سپاہی کی شکل والے اس جرنیل نے مارشل لاء لگا دیا جسے آؤٹ آف ٹرن ترقی دے کر آرمی چیف بنایا گیا تھا، مساوات ،صداقت ، ہلال پاکستان سمیت درجنوں اخبارات اور سینکڑوں جرائد و رسائل کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی، ملک میں سخت ترین سنسر شپ لگا دیا گیا، ہر قسم کی شہری آزادیاں سلب کر لی گئیں، لکھنے پڑھنے اور بولنے پر بھی پہرے لگ گئے، ان حالات میں ، میں نے اپنی زندگی آزادی صحافت کیلئے وقف کردی، کیا کیا ستم تھا جو اس قوم نے برداشت نہ کیا، اس دوران بہت کچھ ہوا، ہم فسطائیت کے خلاف جنگیں لڑتے رہے، جیتتے بھی رہے، ہارتے بھی رہے، ہمارے دل و دماغ، ہماری روحیں ہمارے جسم سب قائد اعظم کے پاکستان کی رہائی کے لئے وقف ہو گئے، ہم میدان کے باہر لڑ رہے تھے اور توصیف احمد خان اور بے شمار صحافی میدان کے اندر بیٹھ کر لڑ رہے تھے، توصیف صاحب جیسے ساتھی ہمارے ہتھیاروں کی طرح تھے، بند اخبارات کبھی کھلتے تھے اور کبھی پھر بند ہوجاتے تھے، یہ سلسلہ 1980ء تک چلا، مارشل لاء مخالف اداروں کے پاس کچھ باقی نہیں بچا تھا، بے روزگار صحافی روٹی کھانے درباروں پر جانے لگے، درباروں سے ہی لنگر لے کر وہ گھروں میں واپس جایا کرتے تھے۔ 1980 ء میں لاہور سے ایک بڑے ادارے نے اخبار شروع کیا تو مجھے وہاں ملازمت مل گئی اور توصیف احمد خان نیوز ایڈیٹر بن کر دوسرے بڑے میڈیا ہاؤس میں پہنچ گئے، تین ماہ بعد ہی مجھے اس نئے اخبار سے گرفتار کرکے شاہی قلعہ کا مہمان بنا لیا گیا، آٹھ نو مہینوں بعد رہائی ملی تو اسی نئے شروع ہونے والے اخبار میں مجھے شفٹ انچارج کے طور پر دوبارہ رکھ لیا گیا، یہ اس اخبار کے مالک اور ایڈیٹر انچیف کا میرے جیسے باغی پر ایک بڑا احسان تھا، میری اور توصیف صاحب کی ملاقاتیں پھر شروع ہو گئیں، ہم دونوں کے دفاتر کے درمیان ایک کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا، ہم دونوں اپنے اپنے دفاتر کے ساتھیوں سمیت ایک ہوٹل پر جمع ہوتے، کچھ دیر خبروں کی باتیں ہوتیں اور پھر پہلے کی طرح توصیف صاحب مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھاتے اور گھر تک چھوڑ کر آتے۔ ایک دن کیا ہوا…؟ توصیف صاحب کے اخبار کی پریس میں روانگی میں تاخیر ہو گئی تو انہوں نے مجھے اپنے اخبار کے دفتر میں بلوا لیا، کاپی تیار ہو چکی تھی، ان کے نیوز روم کے ایک سینئر رکن حسنین مرحوم کو کاپی کو فائنل چیک کے لئے بھجوایا گیا تو توصیف صاحب نے بلند آواز میں کہا۔۔۔۔۔ حسنین، تم چھوڑ دو آج ہمارے اخبار کی کاپی خاور چیک کرے گا، یہ ایک بڑا اور بڑے اعتماد والا فیصلہ تھا، میں نے فرنٹ پیج دیکھنا شروع کیا تو میری نظر سنگل کالم لگی ہوئی ایک ایسی خبر پر پڑی جو میں اپنے اخبار میں شائع کرکے نہیں آیا تھا، میرے خیال میں وہ ایک بڑی خبر تھی اور میرے اخبار کے قارئین اس سے محروم ہونے والے تھے، میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا ، میں نے فیصلہ کیا کہ اس خبر کو ہر قیمت پر میرے اخبار میں بھی چھپنا چاہئیے۔ ہم دونوں اخبار کی اوپری منزل سے نیچے اترے ،خان صاحب نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا، میں اس رات مزنگ چونگی پان کھانے کیلئے نہیں رکنا چاہتا تھا،لیکن رکنا پڑا، میں شمع سینما اتر کر کسی رکشہ میں بیٹھ کر اپنے دفتر واپس جانا چاہتاتھا، لیکن ایسا بھی نہ ہو سکا، اخبار کی اشاعت شروع ہوئے کافی وقت ہو چکا تھا، میں دعا مانگ رہا تھا کہ کسی نہ کسی طور اخبار کی اشاعت مکمل ہونے سے پہلے دفتر پہنچ جاؤں، اخبار کی اشاعت رکوا کر اس مس ہونے والی خبر کو لگوا سکوں، جونہی توصیف صاحب نے مجھے گھر کے دروازے پر اتارا اور واپس اپنے راستے پر مڑے میں نے شمع سینما کی جانب دوڑ لگا دی، کیونکہ رکشے صرف فیروز پور روڈ کی نکڑ پرکھڑے ملتے تھے۔۔۔۔ میں آفس پہنچ چکا تھا، یہ جان کر کہ ابھی آدھے اخبار کی اشاعت باقی ہے ،میں نے پرنٹنگ رکوا دی، پالیسی کے مطابق ایک کاتب اور ایک پیسٹر ایمرجنسی کیلئے آفس میں موجود رہتے تھے، میں نے وہ خبر فرنٹ پیج پر فٹ کرا دینے کے بعد ایک لمبا سانس لیا۔۔۔۔۔۔ شام کو دوبارہ ڈیوٹی کیلئے پہنچا تو ایک آدمی میرے انتظار میں نیوز روم کے باہر کھڑا تھا، اس نے بتایا کہ صاحب آپ سے فوری ملنا چاہتے ہیں، میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔۔۔۔۔خاور صاحب ! آپ نے رات کو پرنٹنگ کیوں رکوادی؟ آپ کو پتہ ہے، مارکیٹ میں اخبار لیٹ ہوجانے کی وجہ سے کتنا نقصان ہوا ؟میں کوئی جواب دیے بغیر خاموشی سے باہر نکل گیا۔