ماہ رجب میں جب بھی دینی مدارس کی دستار بندیوں کاسلسلہ چل پڑتا ہے تومجھے ایک مشہور کتاب اور ایک کُندذہن طالبعلم کثرت سے یادآتے ہیں۔کتاب کانام صحیح بخاری ہے جبکہ طالبعلم سے میری مراد ملا زرغون اخوند ہے جوپندر ہ برس پہلے ژوب کے ایک مدرسے میں دورہ حدیث کے طالبعلم رہے تھے ۔ملازرغون اخوند کی کندذہنی کایہ عالم تھا کہ وہ مولوی توبن گئے لیکن حدیث کی مشہورکتاب(صحیح بخاری )کانام تک سیکھ نہیں پائے۔مذکورہ کتاب کی جلدکارنگ چونکہ پیلاتھا یوںملا زرغون اخوند بوقت ضرورت اسے’’پیلی کتاب‘‘ کہہ کر جان چھڑالیتے۔ گزشتہ اتوارکو ہمیں  بھی ’’پیلے رنگ کی مبارک کتاب‘‘سے متعلق ایک روح پروَر تقریب میں جانے کااتفاق ہوا۔ تقریب کا اہتمام شیخ الحدیث مولانا سید قاسم شاہ نے اپنے جامعہ شمس العلوم میںکیاہوا تھا ۔ صبح نو بجے سے سہ پہر تک اس تقریب میں علماء کرام کی علمی تقریروں کے ساتھ ساتھ طلباء کی خوشنما آواز وں میں نعتیہ کلام بھی سننے کو ملے ۔جے یوآئی کے بزرگ رہنما ایم این اے مولانا عصمت اللہ اس تقریب کے صدر مہمان تھے ۔ محفل میں حسب سابق مولانا امین الحق گستوئی بھی تشریف لائے تھے ۔ اپنے مختصر خطاب میں موصوف نے اس مرتبہ کی بھی بڑی مدلل اور علمی باتیں کیں۔یادرہے کہ مولانا گستوئی علم نحو اوردیگرموضوعات پربھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور حال ہی میں شمائل ترمذی پران کی دوجلدوں پرمشتمل شرح بھی طبع ہوئی ہے ۔قارئین کیلئے یہاں امام بخاری ؒ کی زندگی اور عظیم خدمات کے بارے میں کچھ کہنا ضروری سمجھتاہوں۔یاد رہے کہ 

امام بخاریؒ کا اصل نام محمد بن اسماعیل تھاجوکہ عجمی النسل فارسی تھے۔دین اسلام کایہ روشن ستارہ خراسان کے مشہور علاقے بخارا میں 194ہجری کوطلوع ہوا۔ قدرت نے اُن سے نہ صرف اپنے محبوب پیامبرﷺ کے فرمودات کی چھان بین اور جمع کرنے کاخدمت لیا بلکہ ان پر ہر طرف سے دیگر نوازشات کی بھی انتہا کردی تھی۔ یوں کہیے کہ انسانی تاریخ میں کسی مولف کی تالیف کو ایسی وقعت اور شرف قبولیت حاصل نہیں ہوئی ہے ، جتنی قبولیت محمدبن اسماعیل ؒکی تالیف صحیح بخاری کے حصے میں آئی ہے۔ زہد وتقویٰ اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ امام بخاری ؒ کواللہ تعالی ٰ نے نہایت قوی حافظہ دیا ہوا تھاجو بلاشبہ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ان کی قوت حافظہ اور ذہانت کے قصے چہاردانگ عالم میں اس طرح پھیل گئے کہ ایک مرتبہ بغداد کے محدثین نے باقاعدہ طور پر ان کاامتحان لینے کافیصلہ کرلیا۔اس امتحان میں ممتحنین نے سو حدیثوں کو اس طرح خلط ملط کیاکہ ایک حدیث کی سند کو دوسری حدیث کے متن میں ملادی اور یوں دس دس احادیث کو دس دس آدمیوں کے حوالے کرکے امام بخاریؒ پرپیش کیا۔امامؒ نے پہلے سائل کومخاطب کرکے بتایا کہ پہلی حدیث جس سند سے تم نے بیان کی تھی وہ غلط تھی اور اس کی اصل سندیہ ہے ،یوں پہلے آدمی کے حصے کے دسوں احادیث کی باالترتیب تصحیح کرڈالی۔ اسی طرح دوسرے اور پھرتیسرے کومخاطب کیایہاں تک کہ 

پورے سو احادیث کی اسانید کی ایسی تصحیح کرلی کہ پورے مجمع کو حیرت کے سمندرمیں ڈبوکررکھ دیا ۔صحیح بخاری امام ؒکی کوششوں سے چھان کردہ احادیث کا وہ پہلا مستندترین مجموعہ ہے جواُن سے پہلے کسی محدث نے ایسامجموعہ تیارنہیں کیاتھا۔تاریخی روایات کے مطابق امام بخاری ؒ کو کل چھ لاکھ احادیث کاعلم تھا جن میں سے انہوں نے پہلے ایک لاکھ صحیح احادیث چھان لیے۔ اور پھر ان(ایک لاکھ ) میں سے بھی انہوں نے نہایت کڑی معیار کے تحت صرف آٹھ ہزار صحیح احادیث منتخب کرکے اپنی کتاب (صحیح بخاری )میں شامل کیںجبکہ باقی بیانوے ہزار احادیث انہوں علیحدہ طورپر’’ المستخرج علی صحیح البخاری اور ’’المستدرک ‘‘کی صورت میں محفوظ کیں ۔ اپنی ثقاہت پر جرح نہ آنے کے بارے میں امام بخاری ؒ اتنے حساس تھے کہ ہرطرح کے نقصان کا رسک تولیتے تھے لیکن اپنی ثقاہت پرآنچ آنے نہیں دیتے تھے ۔ کہاجاتا ہے کہ علمی اسفار کے زمانے میں ایک مرتبہ امامؒ بحری سفر پرنکلے اور اپنے ساتھ ایک ہزار اشرفیوں سے بھری تھیلا بھی لے گئے ۔ سفر کے دوران امام ؒ کے ایک لالچی ہمسفر کو ان اشرفیوں کاعلم ہواتو منہ میں پانی بھرآیا ۔ ایک دن نیند سے بیدار ہوتے ہی اس لالچی شخص نے رونا شروع کیا اور کہنے لگے کہ ان کی ایک ایسی تھیلی چوری ہوگئی ہے جس میں ایک ہزار اشرفی تھے۔کافی جستجوکے بعدآخر نوبت تمام مسافروں کاجامہ تلاشی لینے تک پہنچ گئی ۔ اس دوران امام بخاریؒ نے اپنی ذاتی تھیلی کو چپکے سے سمندر بُرد کردیا ۔شدہ شدہ جب دیگر مسافروں کی طرح امام ؒ کی بھی تلاشی لی گئی تو تھیلی ان سے بھی برآمدنہ ہوسکی ۔ منزل پر پہنچ کر بعد میں اُس لالچی شخص نے شرمساری کے عالم میں امام ؒسے دریافت کیا ،ارے صاحب ! تیرے پاس جو تھیلی تھی وہ کہاں گئی کہ جامہ تلاشی لینے کے باوجودبھی تجھ سے برآمدنہیں ہوئی؟ امام نے جواب دیا کہ میںنے تو اسی وقت اسے سمندر میں پھینک دیا ۔اس شخص کو بڑاتعجب ہوا کہ ’’ ایک ہزار اشرفیوں سے بھری تھیلی کوتم نے صرف اسلئے قربان کردی کہ کہیں چوری کا الزام نہ لگے؟ امام نے فرمایا ’’ہاںمیری پوری زندگی رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی طلب میں ختم ہوئی اور میری ثقاہت دنیا بھرمیں مشہور ہے ،کیا میںاپنی ثقاہت اور اعتبار کے اس اعلیٰ سرمایے کو چند اشرفیوں کی وجہ سے کھودیتا؟

ہاں تو بات تقریب کی ہورہی تھی اور پھر وہ مرحلہ بھی آپہنچا جس کے سبھی شرکاء منتظر تھے ۔یہ بخاری شریف کے ختم کامرحلہ تھاجس کیلئے سماں باندھا گیا۔صدر مہمان مولانا عصمت اللہ مدظلہم العالیہ نے جامعہ کے طلباء کوبخاری شریف کی آخری حدیث کی ختم کرائی ۔ اس مبارک حدیث میں سرور کونین ﷺ نے امت کیلئے دو مبارک کلمات کاکثرت سے ذکر کرنے کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’کلمتان خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان حبیبتان ِ الی الرحمن :سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم ۔ترجمہ : دوکلمے ہیں ،زبان پرہلکے ،میزان میں بھاری اور رحمان کو بہت پیارے ہیں(جوکہ سبحان اللہ وبحمدہ اور سبحان اللہ العظیم) ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مبارک کلمات کو کثرت سے پڑھنے کی توفیق دے ۔ آمین