ڈاکٹر ناصر قریشی نے بہت اچھی بات کی کہ ایک استاد نے شاگردوں سے پوچھا کہ یقین اور شک میں کیا فرق ہے۔ ایک شاگرد نے اٹھ کر کہا’’سر :جو آپ نے ہمیں پڑھایا ہے اس کا ہمیں یقین ہے کہ آپ نے درست پڑھایا اور جو ہم نے پڑھا اس میں ہمیں شک ہے کہ ٹھیک سمجھ سکے یا نہیں۔ یہ بات ایک مقدس اور مطہر محفل میں ہو رہی تھی جو ختم تفسیر قرآن کے سلسلہ میں مرغزار کالونی کے خدیجتہ الکبریٰ پارک میں منعقدہوئی جس میں ہمارے محترم و مکرم حمید حسین صاحب نے تفسیر قرآن کااختتام کیا۔ اس علاقہ کے لئے ایک نعمت بے پایاں سے کم نہیں۔ ان کی دودھ سے دھلی ہوئی زبان ‘ مفرس و معرب اسلوب اور شستہ ابلاغ سننے والے پراثر انداز ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ عجزو انکسار کے عامل اور صوفی انداز فکر کے داعی ہیں۔ جس میں ہرگز بناوٹ اور دکھاوا نہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو انقلاب آفریں و نسخہ کیمیا ہے اور کائنات کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ اس کا ہر حرف اعتبار و ہدایت ہے کہ جس میں کوئی ریب نہیں۔ زندگی کا لائحہ عمل بھی ہے اور سلیقہ حیات کا آموختہ بھی خود بخود نہیں کھلتی کہ اس کے لئے تبحر علمی اور ریاضت ازبس ضروری ہے یعنی فہم کے لئے زانوئے تلمذ طے کرنا ضروری ہے۔ لفظوں کی کیمسٹری‘ اصطلاحات کا پس منظر اور بہت سے رموز و اوقاف کا تعلق علم و آگہی و حکمت سے ہے۔ آپ ایک مثال ہی سے دیکھیں کہ جب حمید حسین صاحب آخری دو سورتیںفلق اورناس پڑھا رہے تھے تو لفظ ’’قل‘‘پر بات کرنے لگے کہ یہ ایسا لفظ نہیں کہ پڑھنے والا بغیر توجہ کیے اور بغیر توقف کیے گزر جائے اس قل کے پیچھے پوری فلاسفی اور منطق ہے اس کا پیش منظر بھی ہے اور پس منظر بھی۔ جب کہا گیا کہ قل یعنی کہہ دی جائے تو پھر بات کی اہمیت اور ضرورت سامنے آ گئی کہ وہ بات جو حضور پرنور ﷺ کرنے جا رہے ہیں وہ کسی ذاتی مشاہدہ تجربہ یا تجزیہ کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ تو ایک خبر ہے جو رسول صادق و امین حضور نبی کریمؐ ہمیں دے رہے ہیں۔وہ اپنی بات نہیں ہے بلکہ اللہ کی بات ہے منزل من اللہ ہے جس میں کسی شک و شبے کی سرے سے گنجائش ہی نہیں کہ یہ کسی ذی روح کی بنائی ہوئی آیات ہیں اس کے پیچھے بھی تو وہی حکمت تھی کہ جس کے تحت ﷺ کو امّی رکھا گیا کہ صرف حق کی حقانیت روشن ہو سکے۔ مولانا بتانے لگے کہ ان آخری دو سورتوں کا قریبی ربط تو سورۃ اخلاص ہی سے بنتا ہے کہ صحیح عقیدہ سامنے آ سکے کہ یہ اللہ کا تعارف ہے اور اس کے پیغام پر جو ہمارا ایمان وہ ایمان باالغیب ہے اور یہ مسلمان کا سب سے بڑا اور قیمتی سرمایہ ہے کہ ایمان و یقین حضور کریمؐ کی ذات پر اعتماد کے نتیجہ میں ملا پھر اس ایماں باالغیب پر ایک گونہ تشکر میں ہمیں رہنا چاہیے کہ یہ اللہ کی عنایت و توفیق ہے، وگرنہ آخری دو سورتوں میں جو وسوسے کی بات کی جا رہی ہے وہ کسی کو بھی گمراہ کر سکتا ہے اور پٹڑی سے اتار سکتا ہے اور اس واسطے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سورتوں کو کسی ایک واقعہ کے ساتھ جوڑ کر مخصوص نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے عموم پر رکھنا چاہیے یہ درست ہے کہ یہ سورتیں دم کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ ہماری ہدایت کے لئے اتاری گئیں ان کا براہ راست تعلق ہدایت سے ہے کہ قرآن بنیادی طور پر کتاب ہدایت ہے۔ مجھے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی یاد آ گئے کہ انہوں نے ایک سوال کہ دم جائز ہے یا نہیں ‘ کے جواب میں خوبصورت بات کی کہ دم سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قرآن میں شفا ہے مگر توپ مکھیاں مارنے کے لئے استعمال نہیں ہوتی گو اس سے مکھیاں بھی مر جائیں گی۔ قرآن کی آمد کا مقصد تو اصل میں زندگیاں تبدیل کرنا اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے۔ واقعتاً دیکھنے کی چیز تو یہی ہے کہ قرآن ہماری زندگیوں میں آیا کہ نہیں ہمارے کاروبار اور معاملات اس کے تابع ہیں کہ نہیں وگرنہ تو وہی کہ جو ماہر القادری صاحب نے کہا تھا کہ’’ طاقوںمیں سجایا جاتا ہوں، تعویذ بنایا جاتا ہوں‘ پڑھ پڑھ کے پلایا جاتا ہوں وغیرہ وغیرہ‘‘ پھر اقبال نے بھی ادھر ہی توجہ دلائی تھی کہ اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر۔ سچی بات تو یہی ہے کہ ہم نے قرآن سے منہ موڑ لیا۔ قرآن تو عدالتوں میں اٹھانے کے لئے رہ گیا یا پھر دلہن کو اس کے نیچے سے گزار دیا جاتا ہے، کچھ اپنے مقصد کے لئے بے چاری عورتوں کی اس سے شادی بھی کر دیتے ہیں مگر جو اس میں لکھا ہے کہ انصاف کے ساتھ عورتوں کو جائیداد میں حصہ دو ادھر کوئی نہیں آتا۔ ختم تفسیر قرآن کی تقریب میں کئی دوست بطور خاص شریک ہوئے خاص طور پر محمد نعیم صاحب جنہوں نے کئی سال پہلے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور انہوں نے علیحدہ سے درس کا سلسلہ اپنے گھر پر جاری رکھا ہے۔ عبدالرشید انگوی جو ساری زندگی درس و تدریس سے وابستہ رہے اور اب بھی جمعہ کے روز ہمیں سرشار کرتے ہیں۔ خضر یاسین بھی علم فضل والے ہیں میرے دوست معروف سرجن ڈاکٹر محمد امجد بھی شریک ہوئے۔ ان کا فرزند ڈاکٹر حسیب بھی ساتھ تھا۔ ڈاکٹر محمد امجد نے کالج میں اس شمع کو روشن کر رکھا ہے جوابد آباد تک ہدایت ہے۔ ملک محمد شفیق تو ہمہ وقت اس دعوت کو پھیلا رہے ہیں۔ غلام عباس جلوی کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ان کی کوششوں سے ہم نے کشمیر فنڈ بھی اکٹھا کیا۔ ڈاکٹر ناصر قریشی کو تو اللہ بہت جزا دے کہ یخ بستہ موسموں میں ہمارا درس ان کے ڈرائنگ روم میں آ جاتا ہے پھر انہوں نے گھروں میں کام کرنے والی مائیوں کے بچوں کو مفت تعلیم کا بندوبست بھی کر رکھا ہے میںسمجھتا ہوں کہ اس درس کی برکات ہیں اور اثرات ہیں قرآن کی طرف جب آپ توجہ کرتے ہیں اور اشتیاق سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو یہ آپ کی ترجیحات بدل کے رکھ دیتا ہے جسے اللہ اپنا بنا لے تو پھر وہ کسی اور کو نہیں دیتا کہ حقیقت آشکار ہونے سے حجاب گر جاتے ہیں: خوبصورت بہت تھی یہ دنیا میں نے دنیا کو اس کے نام کیا مولانا نے بہت اچھی بات کہی کہ انسان کو معراج اور بلندی پر پہنچنے کے لئے بہت ساری قوتوں کے خلاف مدافعت کرنا پڑتی ہے۔ وہی بات کہ آخری دو سورتوں کو عموم میں رکھ کر دیکھا جائے کہ وسوسے تو ڈالے جاتے ہیں اور وہاں ثابت قدم بھی رہا جاتا ہے یہ قانون مکلف اور غیر مکلف دونوں پر لاگو ہوتا ہے ایک بیچ جب زمین سے نکلتا ہے تو مدافعت کو چیر کر نکلتا ہے۔ تناور درخت بننے کے لئے سخت موسموں کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرف انسان اپنے شرف انسانیت پر ایسے ہی نہیں پہنچ جاتا وہ قدم قدم پر بہکنے کے اندیشے میں ہوتا ہے ایسے میں اس کی رہنمائی اور تجدید کی ضرورت ہے۔ تبھی تو وہ اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ بہت اچھا لگا کہ کچھ دوستوں نے اپنے بچوں سمیت شرکت کی۔ مقصد بھی یہ ہے کہ اس کارخیر کو گھروں تک بھی پہنچنا چاہیے۔ آئندہ ہم ریکارڈنگ کا بندوبست بھی کر رہے ہیں کہ مولانا کے درس کو کتابی صورت میں لے آئیں۔ مولانا نے بہت بے عرض سے ہم مگر دوستوں نے اصرار کر کے انہیں عمرہ کے لئے ایک لفافہ پیش کیا کہ تحفہ سنت ہے اور اسے قبول کرنا واجب ہے۔ کشمیر کے لئے جمع فنڈ جماعت اسلامی کے سپرد کئے گئے۔ اب آخر میں عبدالغفور ایڈووکیٹ اور جناب آصف صاحب کا شکریہ بھی ہم پر واجب ٹھہرا کہ ایک نے معزز مہمانوں کے لئے دیسی مرغ کی دیگ پکوائی اور دوسرے نے انتہائی لذیذ متنجن۔ چائے ڈاکٹر ناصر قریشی نے گھر لے جا کر پلا دی۔ آخری بات یہ کہ اس قرآن عظیم سے محبت کیجئے کہ یہ قبر اور حشرکا ساتھی ہے بلکہ دنیا میں بھی اس سے زیادہ رہنمائی کوئی نہیں کر سکتا۔ اس سے بھی آگے جو ناطق قرآن ہیں وہ قرآن سے محبت کرنے والے کی شفاعت کیوں نہیں کریں گے۔ آخر میں دو شعر ۔۔۔۔ اے محمدؐ تُو سب سے اعلیٰ ہے پورا قرآں ترا حوالہ ہے جس کے دل میں تری محبت ہے اس کے چاروں طرف اجالا ہے