پلوامہ حملے کے بہانے نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں نے پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو فروغ دیا۔ عوامی جذبات بھڑکائے اور بھارت کے طول و عرض میں موجود کشمیریوں پر پاکستانی ایجنٹ کا لیبل لگا دیا مگر بات نہیں بنی۔ محبوبہ مفتی سے لے کرراج ٹھاکرے اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے جسٹس مرکنڈے کاٹجو تک سب نریندر مودی کو جھٹلا رہے اور پلوامہ حملے کو انتخاب جیتنے کی بھونڈی حرکت قرار دیا جا رہاہے۔ مستقبل کا حال اللہ جانتا ہے بظاہر مگر یہ لگ رہا ہے کہ مودی سرکار اپنے ہی جال میں پھنس گئی ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف اوچھی حرکت کرتی ہے تو ایٹمی جنگ کا خطرہ اور نہ کرے تو انتخاب ہارنے کا اندیشہ ؎ غرض دوگونہ عذاب است جان مجنوں را بلائے صحبت لیلیٰ و فرقت لیلیٰ بھارتی گیدڑ بھبھکیوں پر پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کا جواب نپا تلا اور تحمل و برداشت پر مبنی تھا۔ کوئی‘ ڈینگ ماری گئی نہ کمزوری کا اظہارہوا۔ ممبئی واقعہ ہوا تو صدر آصف علی زرداری نے فوری طور پر آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا کو نئی دہلی جا کر بھارتی حکومت کو مطمئن کرنے کی تلقین کی۔ وزیر اعظم کے مشیر سلامتی لیفٹیننٹ جنرل محمود درانی نے اسے پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کی کارروائی قرار دیدیا۔ پیچھے میاں نواز شریف بھی نہ رہے جنہوں نے کچھ عرصہ بعد اس کی ذمہ داری اپنے ہی اداروں پر ڈال کر بھارت سرکار کو خوش کرنے کی تدبیر کی‘ چند روز قبل عالمی عدالت انصاف میں بھارتی وکیل نے تین بار پاکستان کے وزیر اعظم بننے والے میاں نواز شریف کا یہ بیان اپنے حق میں استعمال کرنے کی سعی کی تو سپریم کورٹ کا فیصلہ کام آیا ‘ورنہ پاکستانی وکیل کے لئے جان چھڑانی مشکل ہوتی۔ پاکستان کے منتخب حکمرانوں کے معذرت خواہانہ طرز عمل‘ دفتر خارجہ کی کمزور سفارتی حکمت عملی اور بھارتی بیانئے کو شد و مدسے آگے بڑھانے والے دانشوروں کے پروپیگنڈے سے شہ پا کر نریندر مودی نے پٹھانکوٹ اور اُڑی کی طرح پلوامہ کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالا مگر بھول گیا کہ ؎ اب عطر بھی ملو توتکلّف کی بو کہاں وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا بھارت کی طرف سے مہم جوئی اب بھی خارج از امکان نہیں‘ خود فریبی مناسب ہے نہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانا دانش مندی۔تاہم حالات ماضی سے مختلف ہیں۔ چند روز کی خاموشی کے بعد بھارتی سیاست و صحافت میں ہوش اور خرد نے انگڑائی لی اور ہذیانی کیفیت قدرے کم ہوئی ہے۔ پلوامہ حملہ کی عدالتی تحقیقات کے لئے دائر درخواست اگرچہ سپریم کورٹ نے مسترد کر دی ہے‘ بھارتی حکومت کی طرف سے شمالی کشمیر کے تھانوں میں پولیس کی جگہ فوج اور جنوبی کشمیر میں سی آر پی تعینات کی جا رہی ہے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آئین کے آرٹیکل 35اے کو ختم کرنے کی دھمکیاں تک دی جا رہی ہیں مگر قومی سطح پر نریندر مودی کے بیانئے کو مسترد کرنے والے بھی سرگرم عمل ہیں‘ جنہیں دبانا بھارتی حکومت کے لئے مشکل ہوتا جا رہا ہے ؎ رہیں نہ رند ‘یہ زاہد کے بس کی بات نہیں تمام شہر ہے‘ دو‘چار‘ دس کی بات نہیں بھارتی حکومت کی غلط بیانی اور بدحواسی کا یہ عالم کہ وہ چند چینلز کو محض اس جرم میں شوکاز نوٹس جاری کر رہی ہے کہ انہوں نے جمعہ کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس بریفنگ نشر کی‘ ایک ایسی پریس بریفنگ جسے دنیا بھر کا میڈیا لائیو دکھا رہا تھا‘ بھارتی عوام کو دکھانا بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے نہ پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات ختم ہو چکے کہ اسے کسی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے اور نہ بریفنگ میں بھارت کے خلاف جنگی جنون ابھارنے کی کوشش کی گئی جو بھارتی حکمرانوں اور فوجی ترجمانوں کی دیرینہ عادت ہے۔ جمہوریت‘سیکولرزم اور آزادی اظہار کے علمبردار بھارت میں میڈیا کا گلادبانے کی روش ریاستی موقف کی کمزوری اور پاکستانی بیانئے کی کامیابی ہے۔ بھارتی پاگل پن اس سطح تک آ گیا کہ وہ کرکٹ ورلڈ کپ سے پاکستان کو خارج کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزا نہ دینے کی پاداش میں ورلڈ اولمپک ایسوسی ایشن نے بھارت پر پابندی عائد کر دی ہے اور اتر کھنڈ کے وزیر کھیل اروند پانڈے نے اعلان کیا ہے کہ اتر کھنڈ میں کسی پاکستانی کھلاڑی کو آنے کی اجازت نہیں‘ اگر کوئی یہاں آیا تو زندہ واپس نہیں جائے گا۔ یہی جنونی کیفیت ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں پیدا ہوئی تھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ‘ عاصمہ جہانگیر اور دیگر پاکستانیوں کے ساتھ بھارت میں بدسلوکی کی گئی تھی۔ حکمران تو خیر ہیں ہی پاکستان اور مسلمانوں کے دشمن‘ انہوں نے کبھی یہ بات چھپائی نہیں‘ مگر آزادی اظہار کے علمبردار اور سیکولرازم و لبرلزم کے دعویدار بھارتی صحافی‘ تجزیہ کار اور دانشوربھی نفرت‘ تنگ نظری اور جنگی جنون کی آگ کو بھڑکانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے انٹرویو میں جب یہ کہا کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کا ڈھنڈورا پیٹنے سے قبل ہمیں زمینی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے کہ چین ‘ امریکہ ‘ سوویت یونین‘ سعودی عرب اس کے ساتھ کھڑے ہیں تو رجت شرما نے فوراً محترمہ پر پاکستانی ایجنٹ کی پھبتی کسی اور کہا کہ پھر تو آپ کو پاکستان چلے جانا چاہیے۔ جس ملک کے دانشوروں‘ تجزیہ نگاروں اور مقبول اینکرز کی ذہنی کم مائیگی کا یہ عالم ہو اور وہ کسی کی معقول بات پر توجہ دینے‘ زمینی حقائق کا ادراک کرنے سے قاصر ہوں وہاں محبوبہ مفتی‘ ارون دھتی رائے‘ مرکنڈے کاٹجو اورومن شروام کا دم غنیمت ہے ورنہ ؎ بجزدیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی پاکستان پر تنگ نظری‘ انتہا پسندی اور بھارت سے نفرت کی تہمت ہمیشہ لگی ‘مگر ہماری فراخدلی اور اعتماد کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا نریندر مودی کی زہریلی تقریر یں بھی نشر اور شائع کر رہا ہے اور اس کے آرمی چیف‘ وزیروں‘ مشیروں کے بیانات بھی۔ پیمرا نے کبھی نوٹس لیا نہ حکومت اور فوجی ترجمان نے ناک بھوں چڑھائی۔ ہمارے بعض دوستوں کا تو مشورہ ہے کہ حکومت پاکستان بھارتی نیوز چینلز زی‘ ری پبلک اور ٹائمز نائو دکھانے کی اجازت دیدے تاکہ پاکستانی عوام مودی حکومت‘ دانشوروں‘ سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے علاوہ بھارت کا حقیقی اور مکروہ چہرہ دیکھ سکیں۔ انہی اور ان جیسے چینلوں نے مقبوضہ کشمیرمیں اینٹی انڈیا جذبات کو ابھارا اور حالت یہ ہے کہ کشمیری تھانے بھی فوج کے حوالے کر دیے گئے ہیں تاکہ وہ عوام پر مزید ظلم ڈھا سکیں۔ بھارت نے امریکہ سے مل کر پاکستان میں عقل و دانش کی وہ فصل کاشت کی جسے ہر برائی اسلامی جمہوریہ میں نظر آتی تھی اور ہر خوبی سیکولر ہندوستان میں مگر ع تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ پلوامہ حملہ نے ڈھول کا پول کھول دیا اور دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جو بدترین حالت میں بھی اپنے ہوش و حواس برقرار رکھتی اور سیاسی و سفارتی اخلاقیات کا لحاظ کرتی ہے جبکہ بھارت چھوٹی ذہنیت کی ایسی ریاست جس کا آج تک ترقی و خوشحالی کچھ بگاڑ سکی نہ سیکولر ازم و جمہوریت اور نہ امریکہ و یورپ کی پشت پناہی۔ ؎ خودی کا نشہ چڑھا‘ آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا