جس دور میں بے آسرا لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھا جائے اور اہل اختیار جب چاہیں انہیں مسل کر پھینک دیں اس دور کے سلطان سے چھوٹی موٹی نہیں بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ آج کے سلطان سے سب سے بڑی بھول یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے بڑے بلکہ بہت بڑے بڑے بول بولے تھے اور بطورمثال حضرت عمرؓ بن خطاب کے سنہری دور کا بارہا حوالہ دیا تھا۔ انہوں نے عمر بنؓ خطاب جیسے جلیل القدر خلیفہ کا یہ قول بھی بار بار دہرایا تھاکہ اگر فرات کے اس کنارے پر کوئی کتا بھی مر جائے تو عمر سے اس کی جوابدہی ہو گی۔ خان صاحب آپ کے ’’مثالی‘‘ دور حکومت میں حیوان نہیں انسان مررہے ہیں‘ نہایت بے بسی میں دم توڑ رہے ہیں‘پولیس کے غیر انسانی ٹارچر کا نشانہ بن رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خدا کی بستی میں جب پولیس ہتھ چھٹ اور حکمران بے بس ہوں تو پھر فریاد صرف خدا سے ہی کیا جا سکتی ہے اور شکوہ بھی اسی سے کیا جا سکتا ہے۔ اے میرے خدا! تیری بستی میں ہم انسانوں کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے۔ فرش سے عرش تک فریاد پہنچانے کا کوئی پروٹوکول نہیں‘ کوئی ضابطہ‘ کوئی قاعدہ نہیں اور کوئی عرضی دائرکرنے کا پروسیجر نہیں۔ اسی لئے تو مرزااسد اللہ غالب نے کہا تھا ؎ فریاد کی کوئی لے نہیں ہے نالہ پابندنے نہیں ہے رحیم یار خان کے پولیس اسٹیشن پر معذور صلاح الدین کے ساتھ پنجاب پولیس کے شیر جوانوں نے تشدد کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اخبار ی رپورٹ کے مطابق پوسٹ مارٹم سے پہلے کی مقتول صلاح الدین کی جو مصدقہ تصاویر موجود ہیں ان میں صلاح الدین کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تشدد کے نشانات موجود نہ ہوں۔ چار رکنی میڈیکل بورڈ نے صلاح الدین کے جسم کے بارہ اعضا کے نمونے فرانزک کے لئے لاہور بھیجے ہیں جبکہ پولیس کی رپورٹ میں لکھا ہے ’’ضربات‘‘ کا کوئی نشان موجود نہیں۔ ریاست مدینہ کے نام لیوا حکمران کی نظر سے شاید والیٔ مدینہ کی یہ حدیث نہیں گزری جس میں جناب مصطفی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں’’تمہیں روز قیامت حق والوں کا حق ضرور ادا کرنا ہو گا۔ حتیٰ کہ بغیر سینگوں والی بکری کو سینگوں والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔(مسلم)جناب خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ روز قیامت والی عدالت میں نہ کوئی وکیل‘ نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی میڈیا کام آئے گا۔ البتہ جس کے پاس اس دنیا میں جتنی بڑی ذمہ داری ہو گی۔ اس کی اتنی ہی شدید باز پرس ہو گی۔ پولیس اتنی لاپروا اور نڈر ہو چکی ہے کہ اسے کسی جوابدہی کا کوئی احساس اور کوئی خوف نہیں۔ کہیں دور دراز کسی راجن پور یا واں بھچراں والے علاقے میں نہیں، پنجاب کے دارالحکومت اور آئی جی آفس لاہور میں ایک اے ایس آئی نے معمر خاتون سے انتہائی بدتمیزی کی‘ اس کے ساتھ بدکلامی کی اور اس کی لاٹھی اٹھا کر پھینک دی۔ کنٹرولڈ میڈیا کے خواہش مند حکمرانوں کو معلوم نہیں بعض اوقات سوشل میڈیا ایسی ناقابل تردید ویڈیو لے کر سامنے آتا ہے کہ جس کی تردید ممکن نہیں۔ معمر خاتون سے بدتمیزی کی یہ ویڈیو دیکھ کر مجھے قدرت اللہ شہاب یاد آ گئے۔ قدرت اللہ شہاب ایک انتہائی دیانتدار اور فرض شناس افسر تھے وہ برصغیر پاک و ہند کے صف اول کے ادیب اورباعمل صوفی بھی تھے۔ انہوں نے جھنگ کے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے اپنا واقعہ لکھا ہے کہ ایک بوڑھی مائی کی زمین کا پٹواری انتقال کرتا تھا اور نہ تحصیلدار اس کی بات سنتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب نے معمر خاتون کو اپنی جیپ میں بٹھایا اور سیدھا پٹواری کے پاس جا پہنچے۔ پٹواری ڈپٹی کمشنر کو دیکھ کر تھر تھر کاپنے لگا۔ اس نے کہا جناب تعمیل ہو گی۔ قدرت اللہ شہاب نے کہا ابھی اس وقت رجسٹر پر انتقال چڑھائو۔ بوڑھی عورت کا کام کروا کے اسے اپنی جیپ میں شہاب صاحب واپس جھنگ شہر لائے۔ سارے راستے مائی قدرت اللہ کو دعائیں دیتی رہی۔ واپس پہنچ کر مائی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے دوپٹے کا پلو کھولا اور اس میں سے بارہ آنے نکال کر ڈپٹی کمشنر قدرت اللہ شہاب کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا ’’پتر ایہہ میری طرفوتیرے واسطے انعام اے‘‘ قدرت اللہ لکھے ہیں ماں کے انعام سے انکار ممکن نہ تھا اور یہ وہ واحد ’’رشوت‘‘ ہے جو میں نے اتنی طویل ملازمت کے دوران لی۔ آج ریاست مدینہ میں بوڑھی مائیوں کو پولیس اہلکاروں سے گالیاں سننا پڑتی ہیں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خان صاحب کے منصفانہ دور حکومت میں پنجاب میں ایک برس کے دوران پولیس تشدد سے 19افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ برائے نام جوڈیشل انکوائریاں ہوئیں۔ محکمانہ تحقیقات بھی ہوئیں مگر کوئی ذمہ دار انجام کو نہ پہنچا۔ پیٹی بھائیوں نے اپنے مجرم بھائیوں کو بچایا۔ جناب عمران خان نے یوٹرن کا فلسفہ ایجاد جس کے مطابق وہ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنی ہر کمٹمنٹ سے پھر سکتے ہیں اور ایسے یو ٹرن کو وہ لیڈری کی شان قرار دیتے ہیں۔ اس فلسفے کے بعد ہر شکوہ‘ ہر شکایت اورہر تنقید کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ ہم نے تو ان کے آغاز اقتدار میں دو واقعات دیکھ کر اپنے تئیں باب شکوہ بند کردیا تھا۔ پہلا چشم کشا واقعہ پاکپتن کے ناکے والا تھا کہ جب پولیس افسران نے ناکے پر ایک بااثر خاندان کے لوگوں سے روٹین کے سوالات کی پاداش میں وزیر اعلیٰ ہائوس میں پیشیاں بھگتیں اور اس کے ساتھ ہی نیک نام پولیس افسر ناصردرانی کا استعفیٰ ۔ خان صاحب کی طرف سے نظام کہنہ کے ساتھ کمپرومائز یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس واقعے نے پولیس کو میسج یہ دیا ہے کہ بااثر لوگوں کو پوچھنا نہیں اور بے آسرا لوگوں کے ساتھ آپ جو کچھ کریں گے تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ پولیس اور انتظامیہ کے حوالے سے عمران خان کا دوسرا ٹیسٹ سانحہ ساہیوال تھا۔ یہ واقعہ وسط اس سال جنوری میں پیش آیا۔ سی ٹی ڈی پولیس نے ساہیوال جی ٹی روڈ پر قادر آباد کے قریب دو میاں بیوی اور ان کی جواں سال بیٹی اور گاڑی کے ڈرائیور کو پھڑکا دیا۔ اگر اس وقت جناب عمران خان اس سانحے پر سٹینڈ لیتے اور گربہ کشتن روز اول کے مصداق حکومت اور ریاست مدعی بن کر مظلوموں کی داد رسی کرتی اورذمہ داروں کو نشان عبرت بناتی تو پھر ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہوتا مگر اس موقع پر بھی کمپرومائزسے کام لیا گیا۔ میں نے اپنے بچپن کے دوست ڈاکٹر سجاد کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اسے کچھ یاد ہے کہ ایوب خان کے زمانے کے گورنر ملک امیر محمد خان کہ جو نہ صرف پنجاب بلکہ سارے مغربی پاکستان کے گورنر تھے اور امن و امان اور حسن انتظام کی بناء پر یاد کیا جاتا ہے‘ اس کا کیا راز تھا۔ ڈاکٹر سجاد نے بتایا کہ اس کے والد صاحب سرگودھا میں تھانیدار تھے۔ میانوالی کے قریب موسیٰ خیل کے تھانے کے سامنے امیر عبداللہ روکھڑی کی بسوں کے ڈرائیورں اور پولیس کے درمیان سخت نوعیت کا جھگڑا ہوا۔ ملک امیر محمد خان نے اس تھانے کے سارے عملے کو تبدیل کر دیا۔ ڈی آئی جی سرگودھا نے وہاں کے تھانیدار کی جگہ ہمارے دوست کے والد کو اس جگہ تھانیدارلگا دیا۔ ایک دو روزبعد ملک امیر محمد خان بنفس نفیس موسیٰ خیل تھانے پہنچ گئے اور انہوں نے ڈاکٹرسجاد کے والد صاحب سے سارے واقعے کی رپورٹ لی اور عین انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کیا۔ جب حکمران انتظام اور انصاف پر کوئی کمپرو مائز نہ کرتے ہوں اور پولیس اور انتظامیہ کو سیاست سے بالکل الگ تھلگ رکھتے ہوں تو پھر اسی پولیس سے بھی امن و امان قائم کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ جناب عمران خان غریب آدمی اور بے سہارا آدمی کا بہت تذکرہ کیا کرتے تھے۔ وہ خوش حالی کے سہانے سپنے دکھایا کرتے تھے۔ وہ ریاست مدینہ کے ماڈل کے مطابق نئے پاکستان کی دل خوش کن تصویر دکھایا کرتے تھے۔ جناب وزیر اعظم غریب آدمی تو آپ کے دیئے ہوئے خواب آپ کو یاد دلانے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔ غریب آدمی کیا چاہتا ہے؟ دو وقت کی روٹی اور جان ومال اور عزت آبرو کی حفاظت۔ ایک وقت کی روٹی آئی ایم ایف نے چھین لی ہے اور پولیس راج میں غریب آدمی کی جان و مال کی حفاظت بھی نہیں۔