باز نہیں آ کر دیتے، پریشانیاں پالنا اور پھر ان کو بڑھاوا دینا شری طبیعت کا وہ امتیازی خاصہ ہے جس سے بدبختی کو فروغ ملتا ہے۔ بدبخت ازلی ہوتے ہیں، لاکھ ٹھوکر لگے، یہ سنورنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ شاعر اپنی متاعِ درد کو جگانے میں صرف کرتا ہے اور جاگتے رہنا کی مسلسل صدائیں بلند کرتا ہے مگر بدبخت اپنی قوم کو ہی اپنی نحوست کی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ روزانہ اخبارات میں قائد آزادی، حریت کی تاریخ کے سرنامہ قائد اعظم کا قول چھپتا ہے۔ پھر بیداریٔ ملت کے عظیم نقیب اور آزادیٔ خیر کے علمبردار حضرت اقبال کا پیغام لوگ روز پڑھتے ہیں لیکن نہ اثر محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی اثرات کے نتائج کا احساس ہوتا ہے۔ اہل قلم اور اہل زبان قوتیں صرف کرتے ہیں کہ نسخۂ نجات تلاش کرو۔ کچھ ہمدرد سچا جھوٹا نسخہ تجویز بھی کرتے ہیں لیکن یہ سب صدا بصحرا اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ صحرا پر بھی بدبختوں کی نحوست منڈلاتی ہے۔ یہ نحوست ہے کیا؟ یہی کہ نہ خود سے انصاف کرو، نہ اپنے حالات سے انصاف کرو اور نہ ہی دوسروں سے انصاف کرو۔ قول میں جھول ہو۔ فعل میں رند بے پرواہ کی سی لڑکھڑاہٹ ہو۔ تعبیر میں اتنی گنجائش ہو کہ صبح کا معنیٰ شام اور شام حسین کو ابتدائے شب دیجور کا نام دیا جا سکے، ع ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں، صرصر کو صبا کہتے ہیں پیشہ ور قزاقوں کا لبادہ کتنا پرجمال ہے کہ ہرہر تارِ لباس میں ظلم کی داستانِ پوشیدہ ہے اور بے چارے سادہ لوگ اسے خلعتِ قیادت کا نام دے کر ’’ہاں ہاں تیرے جانثار بے شمار، بے شمار‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ یہ کلمۂ بے شمار بے شمار کسی حراف واردات باز نے ایسے پلٹایا ہے کہ ناطقہ سربگریباں ہے۔ ورنہ یہ لفظ اظہار محبت کے لیے نہیں بغض وعداوت کی غمازی کے لیے مستقل استعارہ تھا۔ خیر یہ بے انصافی کے رویوں کی نحوست ہر دور میں نئے چہروں پر اترتی ہیں اور یہ نئے چہرے ابلیسی سنگھار کر کے ایسے پٹاپٹ بولتے ہیں کہ دور جدید کے فنکار ان ابلیسوں کے آگے دم بخود ہیں۔ مسئلہ تازہ ہے۔ پرانا ہوتا ہی نہیں، البتہ ہر گھڑی درد کے پیوند بڑھ رہے ہیں۔ قوم کی مفلسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب مفلسی بھی خود کشی پر آمادہ ہے۔ مہنگائی کا بھوت سڑکوں پر ناچ رہا ہے ،لیکن کرسی پر جھولنے والے ہرچہار طرف سے گونگے طبیب، نیم غنودگی میں خواہشات اور نحوستوں کی چڑیلوں سے ہمکنار، اسی ژاژ خائی میں مصروف ہیں جو روایتی قوم دشمن کیا کرتے ہیں۔ کتنے عرصے سے بجٹ بن رہا ہے۔ پرائے اشارے پر الفاظ اور ہندسوں کا نیا گورکھ دھندا سامنے آتا ہے۔ اسمبلی میں جاو بیجا، شاطرانہ، منافقانہ تنقید ہوتی ہے۔ مراعات یافتہ مبصرین کو اختیارات کے صفحات پر برقی ذرائع اطلاعات پر کٹھ پتلی بنا کر سجایا جاتا ہے۔ وہ بے چارے بجٹ کو تھرما میٹر کے پارے پر ناپتے ہیں۔ تھرمامیٹر کسی کا، پارہ کسی کا، دستِ حرکت کسی کا، ناظرین، قارئین، سامعین کس کس جانب نظر دوڑائیں پھر بجٹ چل پڑتا ہے۔ کرسی کے نئے بھکاری اپنا تھیلا، ڈنڈا اٹھا کر لنڈی کوتل سے کیماڑی تک دمادم مست قلندر کا نعرہ لگاتے ہوئے غریب قوم کا مرثیہ پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ پھر ابلیسی غازہ چہرے پر مل کر غریبوں کی کسمپرسی کا رونا روتے ہیں۔ دوپہر کو کسی نئے زیر تربیت بھکاری کے ڈیرے پر لنچ کرتے ہیں اور نئی مہم پر روانہ ہوتے ہیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے مراعات یافتہ، عنایت یافتہ، کچھ خبرباز، کچھ خبر ساز ،طے شدہ ساز باز کیساتھ اہم انٹرویو کرتے ہیں۔ قوم کے درد میں تڑپنے والے دل کی کہانیاں مرتب کرتے ہیں اور بیان کو گیان بتاتے ہیں، اپنے پیسے کھرے کرتے ہیں اور زندہ درگور قوم کا مرثیہ پڑھنے والا لیڈر شاہانہ، فاتحانہ کروفر سے اپنے گھر روانہ ہوتا ہے کہ شام کو اصلی، جعلی اکائونٹس دینے میں اور رات بھر اپنی ذات کو دھوکہ دیتے ہیں۔ دن بھر قوم کی ذلت پر آنسو بہاتے ہیں اور رات بھر قوم کی بے کسی، سادگی پر کھکھلاتے ہیں۔ بجٹ اپنی جگہ بابو بجٹ ہے۔ غیر ملکی عنائتوں کے پروں پر اڑنے والا بجٹ ہے۔ نافذ ہو کر رہے گا۔ پانی نشیب کی طرف بہتا ہے۔ کمزور ہمت لوگ بجٹ کی حدوں میں اور سکڑ جائیں گے۔ روٹی ملے گی تو سالن کو ترسیں گے۔ پانی کے ہر قطرے کو دودھ کی گھونٹ سمجھ کر شاکر ہو جائیں گے۔ کوئی احتجاج نہیں کرتا، حرف شکایت والے خود جملہ فروش ہیں۔ جو احتجاج کا غلغلہ بلند کرتے ہیں وہ خود اپنی اخلاقی، سیاسی، انتظامی حیثیت کے دفاع سے معذور ہیں، وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اعدادوشمار کے بدنیت جادوگر ہیں۔ اب جس ہاتھ میں فرمانِ امروز کے لیے قلم ہے وہ خود غریب کی زندگی سے ناواقف ہے۔ وہ کبھی غریب نہیں رہا۔ معاشی تنگی کا لفظ اس کے نزدیک بے معنی کلمہ ہے۔کسی دور میں نباتات کی قلمکاری سے نئے پودے، نئی اقسام، نئے ثمرات کا تعارف ہوتا تھا۔ اب چور، قزاق باہم ایسی صلح کاری کرتے ہیں کہ چور، ڈاکو، لٹیرا، خائن، راشی اپنی نسل نو کو ایسی ایسی تربیت دیتے ہیں کہ ہر جگہ شرافت کا قلعہ نظر آتا ہے۔ بالکل ریت کا بھربھرا قلعہ، لات مارو تو مسمار، حرام اور چوری کے پیسے سے گرینڈ مساجد کا قیام، مدارس کے معصوم بچوں کو کالے دھن کی روٹی کھلا کر بے سمت راہبرانِ قوم کی افزائش کا نیا انداز۔ روز مرہ کا مرتبہ ہے۔ اخباری تازہ خبر ہے کہ ماضی کے ایک ذمہ دارِ حکومت نے زلزلہ زدگان کی اعانت کی رقم سے اپنی تجوری کو بادشاہ بنا دیا ہے۔ خبر اور تردید ہے۔ نجانے کونسی بات درست ہے۔ اگر خبر درست ہے تو ظالموں کو خدائی لعنت کے طوفان کی زد میں آنا ہے، ان پر مفلوک الحال زلزلہ زدگان کی بددعائیں لمحہ کی چوتھائی گھڑی میں ذات کی برفباری بن کر اتریں گی اور ان کا خاندان بدنام نہیں بے نام ہو جائے گا۔ اگر تردید درست ہے تو ڈرنا چاہئے روایتی سیاسی کنکوے بازوں کو جو ماضی میں بھی قومی خزانے کو محض اس لیے برباد کر چکے ہیں کہ وہ قومی خزانے کے ڈکیتوں کو بین الاقوامی عدالتوں سے سزا دلوائیں گے۔ مگر بعد میں سب کچھ فراڈ، سراب ثابت ہوا اور قوم پر عذاب کی نئی شکلیں سامنے آئی تھیں۔