دلوں میں دہشت، آنکھوں میں وحشت، دماغوں میں خوف، سڑکوں پر ہو کا عالم، اسپتالوں میں ملک الموت کا سایہ، دکانیں بند، بازار خالی، سامانوں کی قلت، ریل گاڑیاں معطل، ہوائی جہاز ہوائی اڈوں پر خاموش کھڑے… بس چرند و پرند کی آوازیں اس سناٹے میں زندگی کا احساس دلاتیں۔ باقی تو یہ جانیے کہ سارے عالم پر موت کا سایہ طاری ہے۔ انسان ایسا بے بس کہ شاہ و گدا سب لاچار۔ برطانیہ کے شہزادے پرنس چارلس اور وہاں کے وزیر اعظم کورونا کے شکار۔ کینیڈا کے صدر سب سے الگ تھلگ۔ امریکہ پر اس وقت کورونا کا قہر عروج پر ہے۔ کل تک اٹلی و چین اس دوڑ میں آگے آگے تھے۔ اب امریکہ سب سے زیادہ کورونا مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ کیا ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک اور نسبتاً غریب اور کیا امریکہ جیسے مالدار و ترقی یافتہ ملک، اس وقت سب اسی قہر خداوندی کے آگے لاچار۔ انسان کا ہر نظام درہم برہم۔ دنیا کی ہر ترقی بے معنی، ساری چمک دمک اور دولت کے وہ نخرے سب بے کار۔ ابھی امریکہ سے کسی کا فون آیا، کہتے تھے آٹے اور روٹی کی قلت ہے۔ پیسے ہوں تو کسی کام کے نہیں۔ پیسے نہیں تو کھانے کے لالے۔ کہاں جائیں، کیا کریں! وہ بے بسی کا عالم کہ پوچھئے مت۔ بس ہر کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا۔ آخر اس مصیبت میں کیجیے تو کیجیے بھی کیا! ارے صاحب، جب امریکہ اور برطانیہ بے بس تو پھر سوچیے کہ اگر کورونا وائرس کی شدت نے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا تو یہاں کیا ہوگا! جناب کہنے کو لاک ڈاون ہے اور سوشل ڈسٹنسنگ پر ملک میں عمل در آمد کیا جارہا ہے۔ لیکن ذرا غریب محلوں اور جھگی جھونپڑیوں والی بستیوں میں جائیے تو پتہ چلے گا کہ کیسا لاک ڈاون اور کہاں کی سوشل ڈسٹنسنگ۔ خدا نخواستہ اگر کسی ایک جھگی جھونپڑی میں ایک شخص بھی کورونا وائرس کا شکار ہو گیا تو پتہ چلتے چلتے نہ جانے کتنے اور بیمار ہو جائیں گے۔ بس پھر تو وبائی آفت کو کوئی روک نہیں سکتا۔ خدا بچائے، لیکن اگر کہیں اس ملک میں یہ وبا پھیلی تو لاکھوں جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔ صاحب جس ملک میں دہلی کے سب سے اہم سرکاری اسپتال یعنی آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایمرجنسی وارڈ کے باہر اکثر درجنوں مریض کھلے آسمان کے نیچے پڑے اندر ایک بیڈ خالی ہونے کا انتظار کرتے ہیں تو جناب ہزاروں اور لاکھوں مریض کس اسپتال میں بھرتی ہوں گے۔ جناب ایسی صورت حال میں اگر ہزارہا لاعلاج گزر جائیں تو کوئی حیرت نہیں۔ اس سوا سو کروڑ آبادی والے ملک میں اتنے مریضوں کے لئے ڈاکٹر، نرسیں، ٹیسٹ کرنے والا عملہ اور دوائیں کہاں سے آئیں گی۔ یہ تو بیماری کی پریشانی ہے۔ جو غریب بیمار نہیں ان کا کون پرسان حال ہے۔ عالم یہ ہے کہ دہلی جیسے شہر سے درجنوں افراد اپنا سامان سروں پر لادے سینکڑوں میل کا سفر کر کے پیدل کسی طرح اپنے گاوں شہر جانے کو نکل پڑے ہیں۔ پوچھو بھائی آخر یہ کیا حماقت ہے، تم بہار پیدل کیسے پہنچو گے، تو جواب سنیے: دہلی میں اگر کورونا وائرس سے بچ گئے تو آخر میں بھوک سے مر جائیں گے۔ کسی طرح پیدل ہی سہی ہفتہ دس روز میں اپنے گھر پہنچے تو کم از کم دال روٹی تو میسر ہوگی۔ جی ہاں، ہندوستان کے دہلی، ممبئی، حیدر آباد و بنگلورو جیسے بڑے بڑے روزی روٹی کے ٹھکانوں میں کروڑوں انسان بغیر کسی پکی نوکری کے روز کماتے اور کھاتے ہیں۔ ادھر سب لاک ڈاون، ادھو اس کی آمدنی بھی لاک ڈاون۔ صاحب وہ دو تین دن تو چلا لے گا، پھر بغیر پیسوں کے وہ پیدل میلوں چل کر گھر پہنچنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یعنی ایک طرف ہر کسی کو کورونا وائرس سے موت کا خطرہ تو بے چارے غریب پر دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔ اگر وہ کورونا وائرس سے بچ گیا تو بھوک سے تو مر ہی جائے گا۔ یعنی ہندوستان پر دوہرا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پھر جب سب بند تو سارے روزگار و دھندے بھی بند۔ ہزاروں کی نوکریاں اور کمائی اب تک جا چکی۔ کروڑوں اور بیروزگار ہونے والے ہیں۔ مودی کے راج میں پہلے نوٹ بندی سے مرے اور اب ملک بندی کا قہر نازل ہے۔ دیکھئے ہوتا کیا ہے! حکومت نے امداد کے پیکیج کا اعلان تو کیا ہے۔ لیکن مودی صاحب حکومت میں آنے سے قبل پندرہ لاکھ روپئے ہر کسی کے بینک کھاتے میں ڈلوانے والے تھے، وہ آج تک کسی کو نصیب نہ ہوئے تو پھر نئے اعلانوں اور امدادوں کا کتنا بھروسہ! یعنی یا شیخ، اپنا اپنا دیکھ، کا ہی اصول چل رہا ہے۔ ایسے میں ہر فرد اور ہر قوم کو اپنا خیال خود کرنا ہوگا۔ لیکن اس سلسلے میں مسلمانوں کی حالت سب سے بدتر ہے۔ اس کو اللہ پر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ کوئی احتیاط کرنے کو راضی نہیں۔ مسلم محلوں میں چلے جائیے تو جناب راتوں میں میلے کا سماں ہے۔ کعبہ بند ہے لیکن ہندوستانی مسجدوں میں بھیڑ ہے۔ جناب اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ اور پھر سینکڑوں و ہزاروں اور لاکھوں کو اپنی گرفت میں دبوچ لیتا ہے۔ اس میں محض احتیاط ہی علاج ہے۔ ایک دوسرے سے دور رہیے۔ گھروں میں بند رہیے۔ مجلسوں و محفلوں میں قطعاً اکٹھا مت ہوئیے۔ شادی بیاہ، موت و زندگی کسی طرح کی بھیڑ سے پرہیز کیجیے۔ چائے خانوں کی بیٹھکوں سے دور رہئے۔ ہر وقت صابن سے ہاتھ دھوتے رہیے۔ خود اللہ فرما چکا ہے کہ ہم اسی کی مدد کرتے ہیں جو خود اپنی مدد کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اگر آپ نے احتیاط نہ برتی تو اللہ بھی احتیاط کرنے والا نہیں ہے۔ نماز تک گھروں میں پڑھیے اور زندگی کی خیر منائیے۔ بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ گھروں میں بند رہیے۔ فی الحال انسان قہر خداوندی کا شکار ہے۔ لیکن جس نے یہ عذاب دیا ہے وہی عذاب سے نجات دلانے والا بھی ہے۔ یہ سناٹا، یہ لاک ڈاون، یہ سڑکوں پر ہو کا عالم، یہ گھروں کی قید، یہ موت کا ڈر، یہ ساز و سامان کی قلت، یہ سفر کی پابندی، یہ اسکول کالج اور آفسوں کی تالہ بندی، یہ روزی روٹی اور کام دھندے کی بے یقینی سب کٹ جائے گی۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ اور ہم زندہ بچیں گے۔ اور اس کا صرف اور صرف ایک یہی راستہ ہے کہ گھروں میں رکیے۔ کیونکہ فی الحال گھروں کی قید ہی دوسری زندگی کا پیغام لائے گی، ورنہ کورونا وائرس کی شکل میں ہر گھر کے دروازے پر موت تو کھڑی ہی ہے۔(بشکریہ سیاست بھارت)