خطّے میں سہروردی سلسلے کے بانی حضرت شیخ الا سلام بہاء ئو الدین زکریاؒ اور مابعد حضرت شاہ رکنِ عالمؒ سے نیاز مندی مجھے میرے اجداد سے ورثے میں ملی ہے، برصغیر میں خانوادہء بخاریہ کے سْرخیل حضرت سیّد جلال الدین سرخ پو ش بخاریؒ، جن تک میرا شجرہء نسب 23 واسطوں سے متصل ہوتا ہے، تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری یلغارکے سبب، بخارا سے نقل مکانی کر کے مشہد سے ہوتے ہوئے، بر صغیر میں جلوہ گر ہوئے، تو اوّلین قیام، ملتان میں حضرت بہائو الدین زکریا ؒ کی خانقاہِ مْعلّٰی میں فرمایا، اور یہاں طویل قیام اور اکتسابِ فیض اور خلافت و نیابت سے سرفراز ی کے ساتھ، آپؒ نے 1244ء میں اوچ شریف کو رونق بخشی، یوں اوچ شریف جو برصغیر کے بخاری سادات کا مرکز ومسکن ہے، سہروردی خانقاہ کے طور پر معروف و معتبر ہوا۔ یہاں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ حضر ت سیّد جلا الدین سرخ پوشؒ، اس قدر طویل مسافت طے کر کے، اس خطے میں، بہائو الدین زکریا ملتانیؒ کے ہاں کیوں تشریف فرما ہوئے، تو اس کا سبب ہر دو عظیم المرتبت خانوادوں کی نجابت و سطوت کے علاوہ ، ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ اس عہد میں سمر قند و بخارا علوم و معارف کے عظیم مراکز میں سے تھے، اور بالخصوص وہاں پر ساداتِ نقوی و حسینی مرجع خلائق تھے۔ حضرت بہائْ الدین زکریا ملتانی ؒ کو دنیا سے ظاہر ی طور پر د ہ فرمائے آٹھ سو سال سے کچھ کم ہونے کو ہیں، تیرھویں صدی عیسوی میں یہ خطّہ آپؒ کے وجودِ سعید کی برکت سے سہروردی سلسلے کا مرکز ہوا۔ گزشتہ روز،ان کے 783 ویں یومِ وصال کی تقریبات، آپؒ کی مرقدِ نور پر رونق افروز ہوئیں، جن میں حاضر ہوا تو ہمیشہ کی طرح، سجادہ نشینِ درگاہ ِ عْظمی حضرت شاہ محمود قریشی مسندِ صدارت و سیادت بر متمکن اور صاحبزادہ ڈاکٹر محمد صدیق خان کانفرنس کی نقابت و نظامت میں مستعد تھے۔ ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایجوکیشن کے استاد اور نشتر میڈیکل کالج میں خدمات کے حامل،مگر گزشتہ نصف صدی سے ان دو عظیم المرتبت اعراس کی ذمہ داریوں کو اعزا ز و اکرام سے نبھانے کو اپنے لیے ہمیشہ وجہہء اعزا زو افتخار جانا۔ دو، ایک سال تک ان کی خدمات کا یہ طویل سلسلہ اپنی گولڈن جوبلی سے باہم ہوجائے گا۔ عرس تقریبات کے موقع پر کسی بھی سجادہ نشین سے انتظامی امورمیں کوآرڈنیشن خطرات مول لینے والی بات ہوتی ہے، ڈاکٹر صاحب، اپنے طویل کیریئر کے سبب، بہت سے امور میں، از خود ہی استحقاق کے حامل ہوچکے ہیں اور وہ سجادہ نشین اور انتظامیہ کے درمیان، اپنے سعیِ پیہم اور کلماتِ خیر کے ذریعہ دل جوئی اور محبت آمیزی کا اہتمام فرما کر، ان دونوں اداروں کو ایک پیج پر رکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اوقاف کی زونل ایڈ منسٹریشن ٹیم کو، ان کی بہترین مینجمنٹ اورحْسنِ انتظام پر،ا نہوں نے بر سرِ محفل و مجلس تحسین سے نوازا، تو مجھے اس پر از خود مسّرت ہوئی، وگرنہ سرکاری محکمے، ایسی نیک نامی کے کہاں حقدار ٹھہرتے ہیں، بہر حال زونل ناظم اوقاف ملتان ضیا ء المصطفیٰ اور سرکل منیجر اوقاف سیّد ایاز گیلانی کی سعی لائقِ تحسین ہے۔ سندھ کے دورافتادہ علاقوں سے مریدین و متوسلین کی کثیر تعداد، ان سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود حاضری کی سعادت سے بہر ہ مند ہورہی تھی،مشائخ و علماء اور سادات کرام بھی جلوہ گر تھے،حضرت بہاء الدین زکریاؒ قومی کانفرنس میں سکالرز نے بالخصوص ، موجودہ قومی اور ملکی صورتحال کے تناظر میں خانقاہ کا وہ سماجی اور معاشرتی کردار، جو سراسر خدمتِ خلق، اِیثار اوربھائی چارے سے عبارت ہے ،کے ابلاغ کا اہتمام کیے ھوئے تھے، اور یقینا آج اس خطّے کو اِس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ کی خانقاہ، اپنے عہد میں وسائل سے اس قدر مالامال تھی کہ بعض اوقات حکومت اور ریاست بھی آپؒ سے اعانت و مدد کے حصول کا اہتمام کر لیتی،ناصر الدین قباچہ کے عہد میں، جب ملتان سخت قحط کی زَد میں تھا، تو آپؒ نے اپنی خانقاہ کے اناج کے گودام کے دروازے عام الناس کے لیے کھول دیئے، قباچہ بھی گند م کے حصول کا خواستگار ہوا، فرمایا فلاں گودام حاضر ہے، سرکاری کارندے بھجوادو، قباچہ کے ملازم اناج کی بوریاں اْٹھا کر لے گئے، تو اس میں سے نقرئی سکوں کے سات کوزے بھی برآمد ہوئے، قباچہ نے یہ کوزے واپس بھجوادیئے، آپؒ نے دیکھ کر فرما، یہ جب گند م اْٹھوارہا تھا تو تب بھی ان کی موجود گی کا علم تھا، ان کو ساتھ اس لیے بھجوادیا ہے، یہ گندم کے علاوہ جن کو مالی اعانت درکارہو، وہ اس رقم سے ہوجائے، آپؒ نے خطّے کی عظیم تر یونیورسٹی ملتان میں قائم کی، جس کے جملہ اخراجات، آپؒ کی خانقاہ کے ذمّہ تھے، یہ اداراہ آپ کی حیاتِ ظاہری میں ساٹھ سال تک سرگرم اور کم و بیش دوسو سال تعلیمی اورتدریسی خدما ت کا امین و علمبردار رہا، آپؒ کے دعوت و تبلیغ کے شعبہ سے واعظین اور مبلغین کی جماعتیں ایک طرف چائنہ، جاوا، سماٹرا، خراسان، فلپائن، انڈونیشیا وملائشیاتک سفر کرتیں، جبکہ دوسری طرف سندھ،مکران، کشمیر، دہلی اور افغانستان تک جا تیں، یہ تبلیغی قافلے ایک مربوط پروگرام اورنظام کے ساتھ روانہ ہوتے، سال کے اختتام پر اپنی کارکردگی رپورٹ، حضرت شیخ الا سلام کی بارگاہ میں پیش کرتے۔ ان علماء اور مبلغین کو ایک اچھے تاجر کے طور پر روانہ کیا جاتا، یہ مالی طور پر مضبوط اور ایک امین تاجر کے اوصاف سے متصف ہوکر سوسائٹی میں اپنا رسوخ قائم کرتے اور دین کی تبلیغ کا فریضہ اعزاز و اکرام سے سر انجام دیتے۔ قباچہ نے آپکے ادارے کے مقابل ، ایک دارلعلوم قائم کیا اور علامہ قطب الدین کاشانی کو اِس کا پرنسپل نامزد کیا۔ آپؒ کے خلفاء بڑی تعداد میں ہیں۔ ا ن میں فخر الدین عراقیؒ اہم ہیں، جو آپؒ کے داماد ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ سہروردی کے بھانجے بھی تھے۔ اس کے علاوہ جلا ل الدین سرخ بخاریؒ، شیخ کبیر الدین عراقؒ،لعل شہباز قلندرؒ،نواب موسیٰؒ،خواجہ حسن افغانؒ، خواجہ کمال الدینؒ،مسعود شیروانیؒ، خواجہ فخر الدین گیلانیؒ،شاہ عالم رحمہم اللہ کے علاوہ پنجاب و سندھ کے بہت سے صوفی بزرگ آپؒ کے عقیدت مند تھے۔ بہاء الدین زکریا ملتانیؒ نے طویل عمر پائی تھی۔ انہوں نے کئی سلاطین کا زمانہ دیکھا۔آپؒ نے 7صفر المظفر661ھ بروز منگل اپنے حجرے میں وفات پائی۔شیخ عمر عمرویؒ نے آخری غسل دیا اور نمازِ جنازہ آپؒ کے صاحبزادے صدر الدین عارف نے پڑھائی۔ آپؒ کے وصال کا ذکر مؤرخین اِس طرح کرتے ہیں کہ آپؒ حسبِ معمول نمازِ ظہر کے بعد حجرہ میں عبادت میں مشغول تھے۔ باہر آپؒ کے صاحبزادے صدر الدین عارفؒ خانقاہ اور حجروں کا جائزہ لے کر آپؒ کے حجرے کی طرف آرہے تھے کہ ایک نورانی صورت بزرگ نے سبزرنگ، سر بمہر لفافہ آپؒکو دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے شیخ الا سلام کی خدمت میں پہنچادیں۔ آپؒ یہ خط شیخ الاسلام کی خدمت میں پہنچا کر واپس آئے تو قاصد موجود نہ تھا۔ شیخ صدر الدین عارف ؒ جلدی سے واپس اندر آگئے تو چاروں طرف یہ آوازیں آرہی تھیں "دوست بدوست رسید " آپؒ نے گھبراکر شیخ السلام کی جانب دیکھا تو آپؒ کاسر سجدے میں تھا اور روح قفسِ عنصری کرچکی تھی۔ آپؒ کا مزار ملتان قلعہ پر واقع ہے اور سال بھر ملک کے کونے کونے سے عقیدت مند حاضر ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔