اس مفلوک الحال گھر میں چمکدار لکڑی کا تابوت سب سے مہنگی شے تھا جس میں اسکی عمر بھر کی کمائی پڑی ہوئی تھی وہ دکھیاری بار بار اٹھ کر تابوت کے پاس آتی کہ اس میں پڑے اپنے لخت جگر کو دیکھ سکے اس کے ہاتھ خود بخود اٹھتے کہ وہ اس کی پیشانی پر بکھرے بال ہٹا کر معصوم چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے اور پیشانی پر ممتا کی مہر ثبت کرسکے۔ وہ ممتا کی ماری دکھیاری نظام اللہ کا نام لے لے کر تابوت سے لپٹ رہی تھی۔ قسمت نے اس کے ساتھ لیڈو کی سانپ سیڑھی والا کھیل کھیلا تھا۔ وہ لمحہ لمحہ محنت کرکے اس آس پر جی رہی تھی کہ اسکا نظام اللہ جوان ہوجائے گا تواپنے بھائی کے ساتھ گھر میں پڑی غربت اٹھا کر باہر پھینک سکے گا ۔ اسکی ساری پریشانیاں، مصائب ماضی کا قصہ ہو جائیں گے۔ اسکی سختیاں ختم ہوجائیں گی اور وہ اپنابڑھاپا جاء نماز پر گزار سکے گی۔ وہ سیدھی سادھی دیہاتی ان پڑھ خاتون تھی، اسے ماہ و سال کے حساب کا کچھ پتہ نہ تھاوہ تو اپنے سخت مشقتی کھردرے ہاتھوں میں بیٹے کا چہرہ لے کر اسکی بھیگتی مسیں دیکھ دیکھ کر اندازہ لگاتی تھی کہ اس کے دکھ بھرے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ وہ غربت کی کسی آخری سطح پر سسک سسک کر زندگی گزار نے والوں میں سے ہے۔ نظام اللہ کا گھر کیا ہے ایک کچا کمرہ ۔ جس سے بمشکل پردہ پوشی ہوپاتی گھرکے سامنے سے مرد گزرتے تو وہ بیٹیوں سے کہتی کہ چارپائی سے اتر کر زمین پر بیٹھ جاؤ کہ بے پردگی ہوتی ہے۔ وہ روتے ہوئے بتاتی کہ تابوت میں پڑا نظام اللہ اس کی جان تھا۔وہ محنت مزدوری سے ملنے والی اجرت کے دس بیس روپے اسکے لئے بچارکھتی تھی اور جب ہاتھ خالی ہوتے اور گھر میں کھانا بھی کم ہوتا تو لاڈلا نظام اللہ منہ بسور لیتا۔ وہ پیار سے اس کا سر گود میں لیتی اور کہتی گھڑے سے دو گلاس پانی پی لو پیٹ بھر جائے گا،کل ان شاء اللہ پلاؤ پکاؤں گی ۔ماں کا یہ جھوٹ نظام اللہ کے سامنے نہ چلتا وہ جانتا تھا کہ اس گھر میں پلاؤ اسی وقت آتا ہے جب کوئی سخی خیرات کرے۔ جانی خیل کے نظام اللہ کے افلاس زدہ گھر کی کہانی امیدوں ،مایوسیوں کی کشمکش کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہی تھی کہ چند روز پہلے وہ کچھ ہوگیا جس کی اسے توقع بھی نہ تھی ،نظام اللہ نے ماں سے کہا کہ وہ دوستوں کے ساتھ شکار پر جارہا ہے ماں نے لاڈلے بیٹے کو تلقین کی کہ زیادہ دیر نہ لگانا مجھے فکر لگی رہتی ہے ،برطانیہ کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی عزیز اللہ خان اور برادر زبیر خان کے مطابق اسکی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ مجھے پتہ ہے تم مجھ سے کتنا پیار کرتی ہو مجھے بھی تم بہت پیاری ہو،یہ نظام اللہ کے اپنے گھر میں آخری الفاظ تھے او ر پھر وہ ایسا گیا کہ پلٹ کر نہیں آیا ۔اسکی ماں بوسیدہ برقع اوڑھے اس کے دوستوں کے گھروں میں پوچھتی رہی، پتہ چلا نظام اللہ اکیلا ہی غائب نہیں اسکے ساتھ گئے تین دوست بھی گھرواپس نہیں آئے ،ممتا کی ماری کو قرار کیسے آتا اس نے یہاں وہاں جا کر کچھ روپے قرض لئے اپنے ایک عزیز کی موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوایا اور کبھی واپس نہ آنے والے بیٹے کو تلاش کرنے لگی ۔جانی خیل روائت پسند پشتونوں کا علاقہ ہے ۔یہاں خواتین موٹرسائیکلوں پر نہیں بیٹھتیں شائد ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ لوگ مڑ مڑ کر موٹرسائیکل پر بیٹھنے والی ’’باغی‘‘ عورت کو دیکھتے اور تبصرے کرتے ،کوئی قیامت کی نشانی کہتا اور کوئی جملہ اچھال کر چلتا بنتا لیکن وہ دکھیاری ہر بات سے بے نیاز اپنا لاڈلاتلاش کرتی رہی۔ اس نے نہ ملنا تھا نہ ملا ۔دن پر دن گزرتے رہے اور پھر ایک دن آوارہ کتوں کوآبادی سے دورزمین پرغیر معمولی انداز میں پنجے مارتے دیکھ کر مقامی لوگ وہاں پہنچے توان کا ماتھا ٹھنکا۔زمین سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ یہاں کچھ دن پہلے ہی گڑھے کھودے گئے ہیں۔ علاقے کے عمائدین کو اطلاع دی گئی ۔ان کے سامنے گڑھے کھودے گئے اورچار لاشیں اس حال میں برآمد کیں کہ پہچاننا مشکل تھا ،پہچانا کیسے جاتا کہ چاروں لاشوں کے چہرے مسخ تھے۔ ظالم کس قدر شقی القلب تھے کہ قتل کے بعد بھی ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوا تھا ۔ یہ سب پڑھنے کے بعد آپ یقینی طور پر کہیں گے یہ تو قیامت ہے آسمان کیوں نہیں گرا، زمین کیوں نہیںپھٹی ،میں کہوں گایہ قیامت نہ تھی ،قیامت یہ تھی کہ جانی خیل کے پشتون اس قتل پر احتجاج کرتے رہے اور کسی نے نوٹس تک نہ لیا،میڈیا چپ رہا ،سیاست دانوں کی زبانیں تالوؤں سے لپٹی رہیں ،انسانی حقوق کے علمبرداروں کے علم سرنگوں رہے اور ریاست مدینہ کے پاس وقت کہاں تھا، رہے اس کے وزیر مشیر تو وہ قبائلیوں کے احتجاج کو کیا اور کیوںوقعت دیتے۔ جب بات بڑھی اور جانی خیل والے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کے لئے اٹھے قانون بھی جاگ گیا،حکومت بھی چوکس ہوگئی کہ وہ بہرحال وفاقی دارالحکومت کے دفاع سے غافل نہیں ،قبائلی آگے بڑھے تصادم ہوا ،یہ دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور دن بدن ان کی تعداد بڑھنے لگی ۔سوشل میڈیا پر شور مچا تو کے پی کے کی حکومت نے وعدے ،یقین دہانیوں سے ’’مسلح‘‘ ہو کر مذاکرات کا ڈول ڈال دیا۔پچیس پچیس لاکھ روپے ہر ،مقتول کی فیملی کو دینے اور علاقے میں امن قائم کرنے کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کرا دیا۔اس کامیابی کی اطلاع حکومتی رکن صوبائی اسمبلی کامران بنگش نے ٹوئٹر پر اس تحکمانہ انداز میں دی کہ مذاکرات کامیاب ہوئے جرگہ ختم ہوا تمام شرکاء کو واپس جانے کی ہدایات کردی گئی ہیں۔۔۔ بنگش صاحب کے تحکمانہ انداز کو ایک طرف رکھتے ہوئے سوال صرف یہ ہے کہ ریاست مدینہ نے اپنے سارے نوٹس صرف ایک شہر کے لئے رکھے ہوئے ہیں ؟ ریاست مدینہ اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے خیبر پختونخواہ کے مظلوموں کو کتنی لاشیں رکھ کر احتجاج کرنا ہوگا؟ ایسا کیا کرنا ہوگا کہ ہمارے میڈیا کے نیوز چینلز کے کیمرے وہاں پہنچ سکیں ؟خدا کے لئے مظلوموں میں تفریق نہ کریں مظلوم کسی بھی مسلک ،مذہب ،زبان،نسل سے ہو وہ بلا امتیاز مظلوم ہوتا ہے قیامت تب ہوتی ہے جب مظلوم کی فریاد اور حکمرانوں کی سماعت میں سات سات روز کے فاصلے ہوں !