مئی دوہزار تیرہ میں انتخابات ہوتے ہیں اور میاں نوازشریف تیسری باروزیرِ اعظم بن جاتے ہیں۔میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنتے ہیں اور وفاق میں چودھری نثارعلی خان وزارتِ داخلہ کا اہم منصب پاتے ہیں۔یہ وہ دِن تھے جب چودھری نثارعلی خان میاں نوازشریف کے بہت قریب تھے۔میاں نواز شریف کو حکومت سنبھالتے وقت جن تین بڑے چیلنج کا سامنا تھا،اُن میں ایک دہشت گردی ،دوسرا توانائی بحران اورتیسرا معاشی بحران تھا۔دہشت گردی کے خاتمے اور قیامِ اَمن کے لیے کالعدم تحریکِ طالبان سے مذاکرات کی ٹھانی گئی،یہاں چودھری نثارعلی خان کا کردار بڑی اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ایک روز میڈیا پر خبر آتی ہے کہ چودھری نثارعلی خان نے وزیرِ اعظم نوازشریف کا تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کروایا ہے۔اس خبر کی تصدیق بارہ مارچ دوہزارچودہ کو ہوجاتی ہے ، جب یہ گاڑی چلا کر، میاں نوازشریف کو اگلی سیٹ پر بٹھا کر بنی گالہ جا پہنچتے ہیں، جہاں عمران خان ،شاہ محمودقریشی،جاویدہاشمی ،جہانگیر ترین اور شیری مزاری کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔اس ملاقات کا مقصدطالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نئی کمیٹی کی تشکیل کے ساتھ سیاسی تصادم سے گریز بتایا جاتا ہے۔ جب مذاکراتی عمل کے باوجود طالبان کی دہشت گردسرگرمیاں جاری رہتی ہیںتو جون دوہزار چودہ میں آپریشن ضربِ عضب کا فیصلہ ہوتا ہے ، اسی فیصلہ کی بدولت اَمن لوٹتا ہے۔ابھی آپریشن کو چند روز ہی ہوتے ہیں کہ عمران خان ،طاہر القادری کے ساتھ لاہور سے دھرنا دینے اسلام آباد کا رُخ کرتے ہیں ،دھرنے کے ابتدائی ایام میں جب حکومت مکمل طورپر خطرے میں گھِرجاتی ہے ،یہ چودھری نثارعلی خان ہی ہوتے ہیں ،جو معاملات کو کسی حد تک سنبھالتے ہیں ۔ 2016ء میں پانامہ اسکینڈل سامنے آتاہے تو مریم نوازشریف کا ظہور بھی ہوتا ہے۔پانامہ اسیکنڈل سے میاں نوازشریف کے وزیرِ اعظم نہ رہنے تک ،چودھری نثارعلی خان منظر سے ایک لحاظ سے ہٹ جاتے ہیں ،پھر شاہد خاقان عباسی کے وزیرِ اعظم بنتے ہی ،یہ مکمل طورپر پی ایم ایل این سے فاصلہ اختیار کرلیتے ہیں۔پانامہ اسیکنڈل سے میاں نوازشریف کی نااہلی ،پھر پنجاب ہائوس اسلام آباد سے اپنے گھر لاہور واپسی کا عرصہ مریم نوازکو ایک سیاست دان کا رُوپ دیتا ہے۔میاں نواز شریف کا پنجاب ہائوس اسلام آباد سے لاہور واپسی کے دوران کا مقبول نعرہ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ بعدازاں مریم نوا ز کی بدولت ’’وو ٹ کو عزت دو‘‘بن جاتا ہے۔چودھری نثارعلی خان میاں نوازشریف کو جی ٹی روڈ سے نہ جانے کا مشورہ دے کر خداحافظ کہتے ہیں ۔میاں نوازشریف کی نااہلی ،جی ٹی روڈ سے لاہور کا سفر،احتساب عدالت کے باپ بیٹی کے کئی پھیرے،کلثوم نوازکو ہسپتال میں بیٹوں کے حوالے کرکے،دونوں کا واپس آکر جیل جانا،پھر جیل سے باہرآنااور ایک بارپھر میاں نوازشریف کا جیل جانا،بعدازاں بیٹی کا نیب کی حراست میں آنے تک ،شہبازشریف،مریم نواز،اسحق ڈار،شاہد خاقان عباسی،خواجہ محمد آصف،احسن اقبال،ایازصادق،رانا ثنا ء اللہ پی ایم ایل این کی پہلی صف میں اورپرویزرشید ،مشاہداللہ خان اور خواجہ سعد رفیق اور بعض دیگر رہنما دوسری صف میں پائے جاتے ہیں۔وزیرِ اعظم بن کر شاہد خاقان عباسی کو زیادہ اہمیت مل جاتی ہے ،پھر جب وہ نیب کی حراست میں آ کر جس انداز سے مقدمے کا سامنا کرتے ہیں ،ان کے سیاسی قد کو بڑا کر جاتا ہے ،یہ شہباز شریف سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔میاں نوازشریف جب بیٹی کے ہمراہ لندن سے واپس آتے ہیں اور ایئرپورٹ سے دھر لیے جاتے ہیں ،میاں شہباز شریف ایئرپورٹ تک نہیں پہنچ پاتے،یہ وہ لمحہ ہوتا ہے ،جب شہباز شریف کسی مصلحت یا کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مریم نواز جیل سے باہر آکر اپنے باپ کو جیل سے باہر لانے کے جتن کرتی ہے اورپی ایم ایل این کے ووٹرز میں باپ کے بعد دوسری بڑی آواز بن جاتی ہے ۔پی ایم ایل این کے ووٹرز مریم نواز میں اپنے لیڈر میاں نوازشریف کی شبیہ محسوس کرتے ہیں ،جبکہ پی ایم ایل این کے ووٹرز کبھی شہباز شریف کو میاں نوازشریف کے رُوپ میںنہیں دیکھ پاتے ۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف دوہزار اَٹھارہ کی انتخابی مہم میںجان ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں۔ انتخابات کے بعد میاں شہباز شریف مصلحت کی آڑ میں پناہ لیے رکھتے ہیں ،جبکہ مریم نواز اپنے باپ کے سیاسی مقام اور اُن کو جیل سے باہر لانے کی کوششیں جاری رکھتی ہے۔ پھر میاں نوازشریف بیمار پڑ کر جیل سے ہسپتال اور وہاں سے شہباز شریف کے ساتھ بیرون ملک جا پہنچتے ہیں۔مریم نواز خاموش ہو جاتی ہے۔مریم نوا ز کی خاموشی اور شہباز شریف کی مصلحت کے بعد شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی آوازیں گونجتی ہیں ۔یہ قید ہوتے ہیں ،پھر باہر آتے ہیں اور باہر آکر خاموش نہیں رہتے بلکہ مسلسل بولتے ہیں اور کراچی جا پہنچتے ہیں۔ نوازشریف بیمار ہیں ،شہباز شریف لندن سے چینی اور گندم بحران پر بیان جاری کرتے رہتے ہیں ،مریم نواز شریف خاموش ہیں، خواجہ محمد آصف اِدھر اُدھر ہیں ،شاہد خاقان عباسی ،احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ خان متحرک ہیں ۔اگریہ تینوں غیر متحرک اور خاموش ہوجاتے ہیں پھرکیا ہوگا…؟مریم نوازدوبارہ بول پائیں گی؟اگر بول بھی پائیں تو کیا بولیںگی؟شہبازشریف اپنی مصلحت سے بڑی کامیابی سمیٹ پائے ہیں؟آخر وہ کیا چیز ہے کہ جو چودھری نثارعلی خان کو ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹاتی ہے،نوازشریف کو نااہل کرواکر لندن بھیج دیتی ہے،شہباز شریف کی سیاست کو کمزو اورمریم نواز کو خاموش کرادیتی ہے،شاہد خاقان عباسی کو قومی لیڈر کے طورپر اُبھرنے نہیں دیتی،احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ خان کو ایک حد تک رکھتی ہے اور پی ایم ایل این کو جے یو آئی ف کے پیچھے کھڑا کروادیتی ہے؟اس کی کھوج لگائے بغیر پی ایم ایل این آگے بڑھ پائے گی؟شاید نہیں ۔