جب میں نے ان سے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر جانے کیلئے سرکاری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے تو متعدد دیگر صحافیوں نے بھی کہا، کہ اس طرح کی کسی پابندی کا سامنا انکو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کبھی نہیں کرنا پڑا ہے۔ کشمیر پر اگر رپورٹنگ ہوئی بھی ہے تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی ہے۔ حتیٰ کہ سرینگر کا مقامی میڈیا بھی بیشتر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پْر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً 30 کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں گائوں والوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے آرکائیوزکو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسز کی تفصیلات ملے گی، جو بقول کئی ڈاکٹروںکے میڈیکل ہسٹری میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے انٹروگیشن سنٹروں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔کشمیر میں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کی آنکھیں بچانے میں مصروف باہر سے آئے ڈاکٹر تک ذہنی تنائو کا شکار ہوگئے کیونکہ ان کے بقول انہوں نے اپنے پورے کیریئر میں ایسی جنگ زدہ صورتحال کبھی نہیں دیکھی تھی۔ قوم پرستی کے خمار میں ڈوبے وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر لیڈروں کے رویے سے ظاہر ہے کہ وہ کشمیری عوام اور پاکستان تک پیغام پہنچانا چاہ رہے ہیں کہ ان کی منزل نا قابل حصول ہے اور کسی بیرونی دبائو کی عدم موجودگی میں ریاست کا وسیع دائرہ بالآخر تحریک کشمیر کو تحلیل کردے گا۔ اور ان کو یقین ہے کہ انتخابات میں یہ طریقہ کار انکو فائدہ پہنچائے گا۔ اپنے تازہ بیان میں فوج کے سربراہ جنرل بیپن راوت نے کہا کہ فوج کشمیر میںڈرون حملے کرسکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ لوگ اجتماعی نقصان (collateral damage) کے لیے تیار ہوں ‘‘۔وہ یہ شاید کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کشمیر میں فوج کا مقابلہ کسی باضابطہ منظم عسکری گروہ سے نہیں بلکہ ناراض نوجوانوں اور عوام کے ساتھ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2010ء میں کشمیر ایسی ہی صورت حال دوچار تھی کہ اس دوران بھارت کے سینئر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدیدار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی، اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہے تھے۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوںکو ششدر اور رنجیدہ کردیا جب اس نے کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کے افسروںکے ’’کارنامے‘‘ سنانے شروع کئے۔ اس نے کہا، بھارتی افسر اس بات پر حیران ہو جاتے ہیںکہ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوںکی جائے؟ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے ان کو بتایا کہ کشمیر میں وہ پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میںگھس کر تلاشیاں کرتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کشمیرکا ہر دروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے۔ اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر انڈر رپورٹنگ کا شکار رہا ہے اور مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں لیا مگر کہا کہ ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا کہ عسکری اور غیر عسکری میں تفریق نہ کرکے وہ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اس خطے میں پلوامہ جیسی بہت سی کہانیاں منظر عام پر آنے کے لئے تفتیشی صحافیوں اور مصنفین کی منتظر ہیں۔ ان داستانوںکی محض ایک جھلک بالی ووڈ کی فلم حیدر میں اور ایڈرین لیوی اورکیتھی اسکاٹ کی کتاب ’’دی میڈوز‘‘ میں ملے گی۔ کشمیر پر چار صدیوں سے زائد طاقت اور خوف کے ذریعے حکومت کی جا رہی ہے۔خوف کی نفسیات بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے؛ تاہم طاقت کا زور اب بھی باقی ہے۔یہاں کہیں امن و سکون نہیں مگراس کے باوجود اہل کشمیر آلام و مشکلات کی شدت برداشت کر کے بھی حالات کے سامنے سپر انداز ہونے کو تیار نہیں۔ شاید اسی حقیقت کا اظہار بارہویں صدی کے مشہور مورخ کلہن پنڈت نے کیا تھاکہ اہل کشمیرکو محض زور بازو سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔ اگلے مالی سال کے دوران تعمیر و ترقی و سرکاری تنخواہوں کے نام پر حکومت جموں و کشمیر میں 88911کروڑ روپے صرف کررہی ہے۔بھارتی حکومت کے سالانہ3.5لاکھ کروڑ روپے کے دفاعی بجٹ کا نصف یعنی تقریباً 1.7 لاکھ کروڑ روپے بھی کشمیر میں ہی خرچ ہوتا ہے۔ اگر اس حساب کو جوڑا جائے تو ایک اندازہ کے مطابق بھارتی حکومت کشمیر پر اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے کیلئے روزانہ 737 کروڑ یعنی سات بلین روپے خرچ کرتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارتی ٹیکس دہندہ کی یہ خون پسینہ کی کمائی کسی مثبت اور تعمیری مد میں خرچ ہوتی ،جس سے جنوبی ایشیا میں غربت کا خاتمہ ہوتا اور اقوام عالم میں اس خطے کو ایک اقتصادی طاقت کا درجہ دلایا جاسکتا تھا۔ ورنہ کشمیر میں ترقی کے نام پر فنڈ فراہم کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی جیل کا بجٹ بنانا۔ جیلر بھی قیدیوںکے کھانے پینے کا خیال تو رکھتا ہی ہے ۔ وہ کتنا ہی نرم دل کیوں نہ ہو ، اسکا اور قیدیوں کے درمیان ایک تنائو کا رشتہ ہی رہتا ہے۔ اگر اب بھی حکومتیں اس نکتہ کو سمجھنے سے قاصر رہیں گی تو یہ خطہ بد ترین عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لئے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ (ختم شد)