میڈیا کے مستعداور فعال ہونے اور سوشل میڈیا کی موجودگی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سی خبریں جو پہلے دبا دی جاتی تھیں، اب وہ کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ جاتی ہیں۔ ایک بڑا نقصان مگر یہ ہورہا ہے کہ بہت سی غلط، بے بنیاد اور فیک خبریں پھیل جاتی ہیں۔ شروع میں دھماکہ خیز خبر آتی ہے، لوگ اس جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقائق کچھ اور تھے۔ایسی غلط خبریں اتنے میں پھیل جاتی ہیں اور واضح تردید نہ ہونے کے باعث ان پر کالم اور ادارتی نوٹ تک لکھ دئیے جاتے ہیں۔ پاکستانی تاریخ میں ایسے افسوسناک جھوٹ کی بڑی مثال مشہور زمانہ مختاراں مائی کیس ہے۔ اس میں جو کچھ کہا گیا، ویسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ خاندانوں کے اختلاف پر تنازع بنا، مقامی مسجد کے امام نے اسے ایشو بنایا، مقامی صحافیوں نے پنجابی محاورے کے مطابق ’’کم چُک دیا۔‘‘مختاراں مائی سول سوسائٹی کی ہیروئن بن گئی، اس کی تنظیم کو لاکھوںکی فنڈنگ ہوگئی۔ اسے کیا پڑی تھی کہ سچ اگلتی۔ ظلم یہ ہوا کہ مخالف گھرانے کے کئی لوگ ناکردہ جرم میں کئی سال جیل میں سڑتے رہے۔ماتحت عدالتوں میں میڈیا کا دبائو کارگر رہا۔اعلیٰ عدالت میں اسے جسٹس اعجاز چودھری جیسا دلیر جج ملا ، جس نے میڈیا اور این جی اوز کے دبائو کی پروا نہ کی اور انصاف پر مبنی فیصلہ کیا۔آج بھی بہت لوگ اس پر افسوس کرتے ہیں کہ مختاراں مائی کے ملزموں کو قرارواقعی سزا نہیں ملی۔وہ جانتے ہی نہیں کہ سچ کیا ہے؟ مختاراں مائی کے ساتھ نہ ریپ ہوا تھا اور نہ ہی وہ مظلوم تھی۔ چند دن پہلے میڈیا میں خبرا ٓئی کہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو لاہور کا اسٹیشن ماسٹرمقرر کیا گیا ہے، مگر ان کے خلاف احتجاج ہور ہا ہے، ان خبروں میں یہ تاثر دیا گیا جیسے خاتون سٹیشن ماسٹر کا بننا ماتحت مردوں سے برداشت نہیں ہور ہا ۔ اگلے روز پتہ چلا کہ مذکورہ خاتون سید ہ مرضیہ زہرہ کو ایک دن کے بعد ہی ہٹا دیا گیا۔اس کے بعد سے میڈیا اور سوشل میڈیا پرتواتر سے یہ کہا جانے لگا کہ دیکھیں پاکستان میں مرد کسی خاتون کو اعلیٰ عہدے پر برداشت ہی نہیں کرتے۔ اگلے روز معروف خاتون صحافی نعیمہ احمد مہجور نے اس پر کالم لکھا ’’عورت کا اتنا خوف کیوں؟‘‘انہوں نے دیگر مثالوں کے ساتھ سیدہ مرضیہ زہرا کی مثال بھی پیش کی اور تاسف کا اظہا ر کیا کہ ان کو ہٹائے جانے کا میڈیا نے نوٹس نہیں لیا۔ نعیمہ مہجور کا فقرہ تھا:’’ ظاہر ہے قومی میڈیا نے اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا اور لیتے بھی کیسے…ایک عورت کی پروموشن یا ڈی موشن کو اتنی اہمیت کیا دینا؟‘‘ اس خبر کو اتفاق سے میں بھی فالو کر تا رہا۔ اس معاملے کا کسی مرد عورت سے کوئی تعلق نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ اسٹیشن ماسٹر کی سیٹ پروموشن والی سیٹ سمجھی جاتی ہے،سٹیشن کے انتظامی امور سے متعلق یہ لوگ سکیل 11 میں بھرتی ہوتے ہیں اور پھراپنی زندگی کے متعدد برس ریلوے اسٹیشنوں کو دینے کے بعد زینہ بہ زینہ ترقی کرتے گریڈ چودہ میں پہنچتے ہیں ، تب جا کر وہ اسٹیشن ماسٹر بن پاتے ہیں۔ کوئی زیادہ خوش نصیب ہوا تووہ گریڈ سولہ تک پہنچ گیا۔یہ روایت ہے کہ گراس روٹ لیول سے ہر قسم کے تجربات حاصل کر کے اوپر آنے والے ، متعلقہ مہارتوں کے حامل شخص کو سٹیشن ماسٹر بنایا جاتا ہے ، یہ ان کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ اس بار ہوا یہ کہ نجانے کس چینل سے نوجوان سی ایس پی آفیسر سیدہ مرضیہ زہرا کوسٹیشن ماسٹر کا چارج مل گیا۔جیسا کہ انتظامیہ کا دعویٰ ہے انہیں عارضی طور پر یہ ذمہ داری دی گئی ہوگی، مگر تکنیکی اور اصولی اعتبار سے غلط تھا۔ سٹیشن ماسٹر کی سیٹ کسی گریڈ سترہ سول سرونٹ کے لئے ہے ہی نہیں۔ یہ نیچے سے پروموشن کر کے اوپر آنے والے کی زندگی کاسب سے بڑا منصب ہے۔ اعتراض پیدا ہونافطری امر تھا۔ سیدہ مرضیہ کوایک دن بعد ہی ہٹا دیا گیا، مگر ایسا ان کے عورت ہونے کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔ اس لئے کہ اسی لاہور ریلوے سٹیشن میں سٹیشن ماسٹر سے زیادہ بڑے اور اہم منصب پر کئی خواتین پہلے سے کام کر رہی ہیں۔ جیسے محترمہ بشریٰ رحمان ڈویژنل ٹرانسپورٹیشن آفیسر ہیں۔ یاد رہے کہ لاہور ڈویژن ایک طرف ساہیوال تک اور دوسری طرف شورکوٹ تک ہے۔ مزے کی بات ہے کہ بشریٰ رحمان سی ایس پی آفیسر ہیں، سینکڑوں مرد ماتحت ہیں، کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ اسی طرح محترمہ شیریںلاہور ہی میں ڈویژنل کمرشل آفیسر ہیں جبکہ ڈویژنل پرسانل آفیسر بھی ایک خاتون ہیں، جبکہ ریلوے کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشن آفیسر بھی ایک خاتون محترمہ قرتہ العین ہیں۔ ایسی خبروں پر قلم اٹھانے سے پہلے اگرتھوڑی تحقیق کر لی جائے تو بعد میں ندامت نہیں ہوتی۔ ہفتہ دس دن پہلے افغانستان سے خبر آئی کہ ایک چودہ سالہ لڑکی نے ریپ کی غرض سے حملہ کرنے والے دو طالبان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ لڑکی کی رائفل تھامے تصویر بھی ساتھ تھی۔ افغان صدر اشرف غنی اور افغان میڈیا نے لڑکی کو ہیروئن کا درجہ دیا، وہ اور اس کے بھائی کو گائوں سے کابل منتقل کر دیا گیا تاکہ طالبان جوابی حملہ نہ کریں۔ دو تین دن بعد خبر آئی کہ معاملہ کچھ اور تھا اور ریپ نہیں بلکہ رشتے کا تنازع تھا۔ اب خود افغان میڈیا میں واقعہ کی اصل تفصیلات آئی ہیں جس کے مطابق جو مبینہ طالبان قتل ہوا، وہ لڑکی کا خاوند تھا۔لڑکی والد نے اس طالبان یا مبینہ طالبان سے اپنی بیٹی بیاہ دی اور اس کی بھتیجی سے خود شادی کر لی۔ کچھ عرصہ قبل لڑکی کا باپ گیا اور اپنی بیوی اس کے میکے چھوڑ کر اپنی بیٹی واپس لے آیا۔ واردات کے دن وہ شخص یا مبینہ طالبان اپنی بیوی واپس لینے آیا، گائوں کے معززین بھی جرگے میں شامل ہوئے،جھگڑا ہوا،فائرنگ ہوئی اور لڑکی کے باپ کے ساتھ اس کا خاوند بھی قتل ہوگیا۔ فائرنگ نجانے لڑکی نے کی بھی یا وہ بھی فسانہ ہے۔اس واقعے کو ہمارے انگریزی پریس ، عالمی میڈیا اور پاکستانی لبرلز نے اس لئے اہمیت دی کہ یہ واقعہ طالبان کے خلاف جاتا تھا۔ چند دن پہلے کراچی سے خبر آئی کہ جامعہ کراچی کے تحقیقی ادارے ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے مالیکولر میڈیشن اینڈ ڈرگ ریسرچ کی پی ایچ ڈی طالبہ نادیہ اشرف چودھری نے مبینہ طو رپر اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر کے نامناسب رویے پر احتجاجاً خودکشی کر لی ۔ اس کے بعد سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر غریب پی ایچ ڈی سپروائزر پر خوفناک قسم کا تبریٰ جاری ہے۔ میڈیا ٹرائل کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی، اس سے کہیں زیادہ بھیانک اور خطرناک سوشل میڈیا ٹرائل ہے ۔ ٹی وی کوئی دیکھے نہ دیکھے، موبائل تو ہر کوئی دیکھتا ہے، ایسی خبروں پر تنقیدی پوسٹیں، بلاگ، وی لاگ، ویڈیوز وغیرہ فوراًوائرل ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ روز ویب سائٹ انڈیپنڈنٹ اردو نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی ،جس میں مرحومہ کے بھائی نے انکشاف کیا کہ ان کی ہمشیرہ خطرناک نفسیاتی مرض شیزوفرینیا کا شکار تھیں اور وہ نفسیاتی علاج کے لئے ہسپتال میں داخل بھی رہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ مرحومہ نے چار سال پہلے بھی خودکشی کی کوشش کی تھی۔ ان کے نفسیاتی مسائل کی بڑی وجہ ان کے والد کا چند سال پہلے خاندانی تنازع میں لاپتہ ہوجانا تھا، ان کی آج تک لاش بھی نہیں ملی۔ نادیہ اشرف اس سانحے سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ بھائی نے بتایا کہ نادیہ نے اپنے سپروائزر کی کبھی شکایت نہیں کی اور وہ ان کا والد کی طرح احترام کرتی تھیں۔ سپروائزر سے موقف لیا گیا تو انہوں نے بتایا،’’ نادیہ اشرف اپنی بیماری اور گھریلو حالات کے باعث پڑھائی پر فوکس نہیں کر پاتی تھیں، چند دن آتیں پھر کچھ عرصے کے لئے غائب ہوجاتیں۔ نادیہ کے اصل مسائل ان کے خاندان سے منسلک تھے۔ وہ اپنے والد کی گمشدگی اور اپنے چچا کی جانب سے پراپرٹی کے تنازعات کے حوالے سے پریشان رہتی تھیں۔ نادیہ کو ڈر تھا کہ یہ لوگ انہیں کچھ کر دیں گے یا ان کی صحت خراب ہونے کے باعث انہیں کچھ ہو جائے گا۔وہ اپنی والدہ کی بارے میں بہت فکرمند رہتی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کی پی ایچ ڈی تاخیر کا شکار ہوئی جبکہ عام طور پر ان کے تحقیقاتی ادارے کے طلبہ چار سے پانچ سالوں میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لیتے ہیں۔‘‘ ویب سائٹ نے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹرعائشہ صدیقہ کی رائے بھی نقل کی جن کے مطابق شیزوفرینیا ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد وہمی ہوتے ہیں اور وہ ایسی چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو موجود نہیں ہوتیں۔انہیں کئی قسموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، چیزیں دکھائی دیتی ہیں، ان کو ہر وقت لگتا ہے کہ ان کے جسم پر چیز رینگ رہی ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس سپروائزر کا بھی خاندان اور دوست احباب ہوں گے۔ منفی پبلسٹی نے انہیں کتنی تکلیف پہنچائی ہوگی؟ اگر اس معاملے کا یہ رخ سامنے نہ آتا تو شائد میں بھی دوسروں کی طرح پی ایچ ڈی سپروائزرکو ملزم سمجھتا رہتا۔ یہ درست کہ بہت سے واقعات میں سپروائزر صاحبان کا رویہ مثالی یا مناسب نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا ہے، مگر بہت بار ایسا نہیں بھی ہوتا۔ کئی دفعہ ہم جسے سچ سمجھ رہے ہوتے ہیں، وہ دھوکا نکلتا ہے۔ اس لئے محتاط رہیں۔ حتمی فیصلہ دینے سے پہلے اچھی طرح جانچ لیں۔